'ہم ایک بٹن دباتے اور تباہ کر دیتے': پاکستان نیوی نے بھارتی آبدوز کیسے پکڑی؟

ہماری دسترس میں تھا کہ ہم ایک بٹن دباتے اور تارپیڈو یا ڈیپتھ چارج ایک لمحے میں بھارتی آبدوز کو تباہ کر دیتا، کمانڈر خرم داؤد

ہمہ وقت ہے دشمن نگاہوں میں اپنی

ہماراہر قدم دشمن کے قدم سے آگے

پلوامہ حملوں کے بعد بری اور فضائی سرحدوں پر بری طرح مات کھانے کے بعد وہ پاکستانی بحری حدود کو بھی آزمانے چلا آیاتھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہاں بھی اس کا سامنا جری آب زادوں سے ہو گا۔ 

انڈیا کی خود ستائشی اور زعم کا یہ عالم تھا کہ وہ جدید ترین آبدوز (سب میرین) کو پاکستان کے پانیوں میں لے آیا جس کے بارے میں وہ دعویٰ کر رہا تھا کہ اس آبدوز کے پاس غیاب کا جادو ہے۔ 

وہ جانتا تو تھا لیکن شاید وقتی طور پربھول بیٹھا تھا کہ اس کا سامنا پاکستان کی سمندر ی حدود کی حفاظت پر مامور اس بحری فوج سے ہے جو جذبہ ایمانی سے لیس ہے، وہ جذبہ جس کے آگے دنیا کا ہر جذبہ ہیچ ہے۔ 

ہوا بھی یہی کہ پاک بحریہ نے اپنی سمندری حدود میں دراندازی کرنے والی بھارتی آبدوز کا بروقت سراغ لگا لیا۔نومبر 2016 کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب پاک بحریہ نے بھارتی آبدوزکا سُراغ لگایا۔

امن قائم رکھنے کی حکومتی پالیسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان نیوی کی طرف سے بھارتی آبدوز کو نشانہ نہیں بنایا گیا جو پاکستان کی امن پسندی کا مظہر ہے۔لیکن افسوس کہ بھارت اس سے سبق حاصل نہیں کر سکا اور وہ ابھی بھی تواتر سے اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے۔ 

یہ اہم کارنامہ پاکستان نیوی کی اعلیٰ صلاحیتوں کامنہ بولتا ثبوت ہے اور غماز ہے کہ پاکستان کی بحری سرحدوں کے دفاع کے لیے پاک بحریہ ہمہ وقت مستعد و تیارہے اور کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔

پاک بحریہ نے پاکستانی بحری و فضائی نگرانی ودفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے سلسلے میں شاندار فضائی بیڑے میں شامل جدید P3C اورین طیارے97-1996 میں حاصل کیے۔ 

دن اور رات کے کسی بھی وقت میں آپریشنز کرنے کی صلاحیت رکھنے والے P3C Orion جہاز طویل فاصلے تک ہتھیاروں کے ساتھ آپریشن کرنے کی غیر معمولی صلاحیت کے ساتھ ساتھ سترہ (17)گھنٹے مسلسل پروازکر سکتے ہیں۔ 

— فوٹو بشکریہ پاکستان نیوی

ان ہتھیاروں میں اینٹی سرفیس میزائل، تارپیڈوز(Torpedoes)،ڈیپتھ چارجز(Depth Charges)، اورMines شامل ہیں۔ 

یہ خصوصیات P3C Orion کوایک مہلک لانگ رینج میری ٹائم پیٹرول ایئر کرافٹ (Long Range Maritime Patrol Aircraft) بناتی ہیں جو Anti Submarine Warfare،Anti Surface Ships Operations اور سرویلینس جیسے مختلف آپریشنز کے لیے استعمال کیا جا تا ہے۔بھارتی آبدوز کی نشاندہی کا معرکہ بھی فلائننگ ڈسٹرائر کہلائے جانے والے اسی طیارے میں موجود ٹیم کے نام رہا۔

اس ٹیم میں اپنے ہنر میں یکتا کئی ارکان شامل تھے جن کی سربراہی طیارے میں موجود فلائٹ کیپٹن کمانڈر خرم داؤدکر رہے تھے۔

اس ٹیم کی سربراہی طیارے میں موجود فلائٹ کیپٹن کمانڈر خرم داؤدکر رہے تھے— فوٹو بشکریہ پاکستان نیوی

ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے کمانڈر خرم داؤد)تمغہ ئبسالت(نے جولائی 2001 میں پاکستان نیوی میں شمولیت اختیار کی۔ آپ کو 2003 میں آپریشنر برانچ میں کمیشن ملا۔ NUST کراچی سے الیکٹرانکس میں انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آپ نے دو سال تک بحری جہاز پر بطور برج واچ کیپنگ آفیسرکی خدمات سر انجام دیں۔ 

بعد ازاں سنہ 2007 میں آپ بطور فکسڈونگ پائلٹ نیول ایوئیشن کا حصہ بنے۔ آپ اب تک مختلف ہوائی جہازوں پر تین ہزار پانچ سو سے زائدگھنٹے فلائنگ کر چکے ہیں۔ جن میں سپر مشاق، فوکر، ڈیفینڈر، اور پی تھری سی اورئن شامل ہیں۔

4 مارچ 2019 کو پاک سر زمین کے پانیوں میں داخل ہونے والی دشمن کی آبدوز کے ناپاک عزائم کو آپ نے کمال پیشہ وارانہ مہارت، انتہائی جرات و بہادری اور احساس ِذمے داری کے ساتھ خاک میں ملایا۔ اس جرات مندانہ کارنامے پر آپ کو تمغہ ئ بسالت سے نوازا گیا۔

4مارچ 2019کے معرکے کی روداد کمانڈر خرم داؤد کی زبانی

— فوٹو بشکریہ پاکستان نیوی

نیوی کی فلائنگ دیگر فلائنگس میں بنیادی فرق صرف اتنا ہے کہ نیوی کے طیارے سمندر کے اوپرپروازکرتے ہیں۔ ہمارا کام سمندر ی اور ساحلی حدود کی نگرانی اور پاسبانی کرنا ہے۔ 

زیادہ تر مشنز پاک بحریہ کے جہازوں اور آبدوزوں کے ساتھ مشترکہ ہوتے ہیں۔ سمندر میں دشمن کے بحری اثاثوں کی کھوج اوران کے خلاف کاروائی کرنے کے مشن کرتے ہیں۔ان مشنز میں ان کی نقل و حرکت پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ ہم بری اور فضائی فورس کے ساتھ بھی مل کر آپریشن کرتے ہیں۔

نظم وضبط کا کڑا معیار، فوری رد ِعمل اور فیصلے کی صلاحیت، ہماری تربیت کا لازم و ملزوم حصہ ہیں۔بس یوں سمجھ لیجیے کہ ایک ہواباز جب جہاز میں ہوتا ہے تو اس کی سوچ کی تیزی کا مقابلہ جہاز کی رفتار سے ہوتا ہے۔

پلوامہ حملے کے بعد پاک فضائیہ کی جانب سے منہ توڑ جواب ملنے کے بعد دشمن بہت جارحانہ عزائم لیے ہوئے تھا۔ہمیں اس بات کا اندازہ تھا کہ دشمن اب سمندری حدود سے در اندازی کرنے کی کوشش کرے گااورہمیں یہ بھی احساس تھا کہ لوگوں کو ہم سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں اس لیے ذمے داری کا احساس بڑھ چکا تھا۔

4 مارچ 2019 کی رات وہی ہوا جس کے لیے ہم بھر پور طریقے سے تیار تھے۔دشمن نے اپنے تئیں انتہائی خاموشی سے پاکستان کے پانیوں میں گھسنے کی کوشش کی۔

ہماری دسترس میں تھا کہ ہم ایک بٹن دباتے اور تارپیڈو یا ڈیپتھ چارج ایک لمحے میں سمندر کی اتھاہ گہرائیوں کوبھارتی آبدوز کی قبر بنا دیتا۔

یہ بھارتی آبدوز کلویری تھی۔اسے جدید ترین آبدوز کہا جائے تو غلط نہ ہوگا بھارت جو اس کی سب سے بڑی خوبی کا دعوے دار تھا وہ یہ تھی کہ اس آبدوز کا سرغ لگا لینا مشکل ہی نہیں نا ممکن تھا۔

لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ جہاں سے اس کے نا ممکن کی حد ختم ہوتی ہے وہاں سے ہمارے ممکن کا آغاز ہوتا ہے۔دشمن نے دراندازی کرنے کی کوشش کی مگرہم نے اس کا سراغ لگایا اور اسے واپس اس کے پانیوں میں دھکیل دیا۔یہ اتنی سی بات نہیں ہے۔یہیں سے دشمن کے دعوے اپنے اختتام پر پہنچے اور ہماری کامیابی کی داستان شروع ہوئی۔

اس دن بھی ہم اینٹی آبدوز وار فئیر مشن پر تھے۔ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ دشمن سے مڈ بھیڑ ہو جائے گی۔ہماری تیاری مکمل تھی اور ہم تو ہمیشہ سے اس تاک میں تھے کہ دشمن کا سامنا ہو اور ہم اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکیں۔

میں جہاز کے کاک پٹ میں بطور کیپٹن اپنے فرائض سر انجام دے رہا تھا اور سینئر ہونے کی وجہ سے مشن کمانڈر بھی تھا۔میرے ساتھ معاون پائلٹ لیفٹیننٹ کمانڈر فخرالرحمان، ٹیکٹیکل آفیسر لیفٹیننٹ کمانڈر حمیرافتخار اور دیگر تکنیکی عملہ بھی موجودتھے۔

کاک پٹ میں ہم مکمل طور پر چوکنا تھے۔سمندر پر رات کے سائے پھیل چکے تھے کہ ریڈار آپریٹر نے سمندر میں ایک مشتبہ کانٹییکٹ دیکھا۔۔مجھے لیفٹیننٹ کمانڈر حمیر افتخار نے یہ بات بہت پر جوش ہو کر بتائی۔ 

یہ فیصلہ کن مرحلہ تھا میں نے فوراً اس آبدوز کے قریب جا کر اسے جانچنے اور اس کی موجودگی کو ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔ رات کی تاریکی میں سمندر کے اوپر اتنی برق رفتاری سے اتنی کم اونچائی پر اڑان بھرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ زمانہ امن میں ہم اس کی کافی تربیت حاصل کر چکے ہوتے ہیں اور اس تربیت کا مسلسل اعادہ ہوتا رہتا ہے۔بات جب ملکی سا لمیت کی ہو تو کسی بھی قسم کے خطرات بے معنی ہو جاتے ہیں۔

ہم نے تیزی سے اس مشتبہ کانٹیکٹ کے قریب جانا شروع کیااور ہم پر آشکار ہوا کہ یہ بھارتی آبدوز تھی۔پوری ٹیم مکمل طریقے سے چوکنا تھی۔ وطن کی محبت اور جذبہ عروج پر تھا لیکن اعصاب پھر بھی کنٹرول میں تھے اور یہی ہماری تربیت اور وقت کی ضرورت بھی تھی۔

— فوٹو بشکریہ پاکستان نیوی

اینٹی آبدوز جہاز زیر ِآب آبدوز کو کیسے ڈھونڈتا ہے، وہ اس طرح کہ جہاز پر کافی سینسرز موجود ہوتے ہیں جنھیں آسان الفاظ میں اگر سمجھایا جائے تو ریڈار ہوتا ہے۔ہمارے پاس سونو بوائز بھی ہوتے ہیں جنھیں پانی میں آبدوز کی قطعی نشاندہی اور اس سے متعلقہ تفصیلات جاننے کے لیے اس کے گردو نواح میں پھینکا جاتا ہے۔آبدوز کوسمندر میں ڈھونڈنا بہت ہی مشکل کام ہے۔اتنے بڑے حجم کی ہونے کے باوجود سمندر کی وسعت میں وہ رائی برا بر ہو جاتی ہے۔

یہ کامیابی ماں کی دعاؤں، پاک بحریہ کی کڑی تربیت، افسرانِ اعلیٰ کی راہ نمائی، اور ٹیم ورک کا نتیجہ ہے

اس کامیابی کے پیچھے کسی ایک کا نہیں پوری ٹیم کا ہاتھ تھا۔ اصل کام آبدوز ڈھونڈنا تھا اور اس وقت سب سے آسان کام اسے تبا ہ کرنا تھا۔ ہماری دسترس میں تھا کہ ہم ایک بٹن دباتے اور تارپیڈو یا ڈیپتھ چارج ایک لمحے میں سمندر کی اتھاہ گہرائیوں کوبھارتی آبدوز کی قبر بنا دیتا۔

مگر جذبات پر قابو رکھنااور ہائی کمانڈ کے احکامات کے مطابق عمل کرنا ہماری تربیت کا حصہ ہے۔ اس معاملے میں بھی ہم نے اعلی ٰ حکام کے فیصلے کو افضل جانا اور آبدوز کو واپس اسی کے پانیوں میں دھکیل دیا۔ یہ واضع پیغام تھا کہ اس دفعہ تو واپس بھیج رہے ہیں کیونکہ ہم امن کے داعی ہیں۔ اگلی دفعہ ایسی کوئی بھی حرکت آخری غلطی ثابت ہوسکتی ہے۔

میری والدہ میرے لیے ہمیشہ دعا گو رہی ہیں کہ میں دشمنوں کے سامنے کامیاب رہوں۔ یہ کامیابی ماں کی دعاؤں، پاک بحریہ کی کڑی تربیت، افسرانِ اعلیٰ کی راہ نمائی، اور ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔

کمانڈر خرم داؤد ہوں یا لیفٹیننٹ کمانڈر حمیر افتخار، یا جہاز میں موجود دیگر ٹیم کے ارکان، یہ استعارہ ہیں پاکستان نیوی کے ہر جوان ہر افسر کے جذبے اور کڑی تربیت اور صلاحیتوں کا۔