سب ’’چریا‘‘ہیں

11ستمبر 2012کو کراچی کے علاقہ بلدیہ ٹاؤن کی ایک فیکٹری میں خوفناک آتشزدگی سے 260مرد و خواتین جل کر خاک ہو گئے۔ ابتدائی طور پر سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی ایف آئی آر فیکٹری مالکان کے خلاف درج کی گئی مگر ان شکوک و شبہات کا مسلسل اظہار ہوتا رہا کہ آگ حادثاتی طور پر نہیں لگی بلکہ جان بوجھ کر لگائی گئی۔

فروری 2015میں اس مقدمے نے تب ایک نیا موڑ لیا جب پاکستان رینجرز نے سندھ ہائیکورٹ میں جمع کروائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ 25کروڑ روپے کا بھتہ ادا نہ کرنے کی پاداش میں فیکٹری میں آگ لگائی گئی۔ اس جے آئی ٹی کی روشنی میں پھر سے تفتیش شروع ہوئی سندھ پولیس نے بھی نئی چارج شیٹ فائل کی۔ 

فیکٹری مالکان نے تصدیق کی کہ انہیں بھتہ کی پرچی وصول ہوئی۔ دسمبر2016 میں سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے مرکزی ملزم عبدالرحمٰن عرف بھولا کو انٹرپول کے ذریعے بنکاک سے گرفتار کیا گیا۔ 

عبدالرحمٰن عرف بھولا نے مجسٹریٹ کے روبرو ریکارڈ کروائے گئے بیان میں اعتراف کیا کہ اس نے ایم کیو ایم کے رہنما حمادصدیقی کی ہدایت پرزبیر عرف چریا اور دیگر کو بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ لگانے کو کہا کیونکہ فیکٹری مالکان بھتہ دینے یا فیکٹری کی ملکیت میں شراکت داری سے انکار کرچکے تھے۔ عبدالرحمٰن عرف بھولا نے یہ بھی کہا کہ اس وقت کے صوبائی وزیر رؤف صدیقی نے ہی سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا مقدمہ فیکٹری مالکان کے خلاف درج کروایا اوربعد ازاں 4سے 5کروڑ روپے کی رقم یہ مقدمہ ختم کروانے کے لئے فیکٹری مالکان سے وصول کی گئی۔

 فیکٹری کے مالک ارشد بھیلا نے بھی ان الزامات کی تصدیق کی اور عدالت میں ریکارڈ کروائے گئے بیان میں کہا کہ ایم کیو ایم نے ہم سے بھتہ مانگا، عدم ادائیگی پر فیکٹری میں آگ لگا دی گئی اور پھر اس کا مقدمہ رؤف صدیقی کے دباؤ پر ہمارے ہی خلاف درج کرکے 24گھنٹوں میں ہمارا نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا لیکن پولیس نے اپنے تفتیش کے بعد جوضمنی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی اس میں رؤف صدیقی کو معصوم قرار دیا گیا۔

انسداد دہشتگردی کی عدالت نے 8سال بعد 22 ستمبر2020کو سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا فیصلہ سنایا تو پولیس کی ضمنی رپورٹ کے مطابق رؤف صدیقی سمیت 4ملزموں کو شواہد دستیاب نہ ہونے کی بنا پر بری کردیا جبکہ دو مرکزی ملزموں عبدالرحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو پھانسی کی سزا سنادی۔  اس کے علاوہ عدالت نے جرم میں معاونت کرنے پر فیکٹری کے 4چوکیداروں کو بھی سزا سنائی ہے۔

برسہا برس سے انصاف کے منتظر لوگ اس فیصلے پر مایوس ہیں کیونکہ ان کے خیال میں چھوٹی مچھلیاں تو پھنس گئی ہیں مگر بڑی مچھلیاں قانون کا جال پھاڑ کر باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی ہیں لیکن مایوسی کا اظہار کرنے والے ہم سب ’’چریا‘‘ ہیں اور اتنی سی بات نہیں جانتے کہ بڑی مچھلیاں قانون کی گرفت میں آجاتیں تو پھر مگرمچھ کے گرد گھیرا تنگ ہو جاتا اور دریا میں رہتے ہوئے مگر مچھ سے بیر کا مطلب تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے۔ 

یہ تو ہمارے معاشرے کا دستور اور معمول ہے کہ کوئی چور یا ڈاکو رنگے ہاتھوں پکڑا جائے تو اس کے رسہ گیر لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں اور پھر اس مہرے کی قربانی دیکر حالات قابو میں کر لئے جاتے ہیں۔ آپ کو عزیر بلوچ کی ڈرامائی گرفتار ی یاد نہیں۔وہ عزیر بلوچ جسے سب سردار عزیر بلوچ کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے، گرفتار ہوا تو سب نے آنکھیں ماتھے پہ رکھ لیں۔ 

برسوں کے یارانے اس ایک جملے سے اختتام پذیر ہوئے کہ کون عزیر بلوچ؟ عزیر بلوچ کے ریڈ وارنٹ جاری ہو چکے تھے ایک بار یہ خبر بھی ملی کہ عزیر بلوچ دبئی پولیس کی تحویل میں ہے، اس کی بیٹی نے دعویٰ کیا کہ جس دن گرفتار ی ظاہر کی گئی اس سے 13ماہ پہلے عزیر بلوچ کو اُٹھا لیا گیا تھا اور پھر کراچی کے مضافات میں ٹہلتے عزیر بلوچ کی اچانک گرفتاری بھی یوں ہوئی کہ اس کے سفید لباس پر کوئی شکن آئی نہ دامن پر کوئی داغ لگا۔ 

شاید فوٹو گرافر کو بھی عزیز بلوچ اپنے ساتھ لایا تھا جس نے فوری طور پر تصویر اتار کر رینجرز کے حوالے کردی تاکہ میڈیا کو جاری کی جا سکے۔ بہرحال، عزیر بلوچ کی ماں نے ایک جملے کی صورت میں دریا کو کوزے میں بند کردیا۔ اس نے کہا، ہماری زندگیاں بس اسی لئے ہیں کہ بناؤ، استعمال کرو اور پھینک دو۔

گزشتہ چند برس کے دوران کتنے ہی ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا، عدالتی کارروائی کے بعد کئی خطرناک مجرموں کو کیفرکردار تک بھی پہنچایا گیا۔ اجمل پہاڑی، صولت مرزا، فیصل موٹا، طاہر لمبا، قمر ٹیڈی، فہیم مرچی، سرور کمانڈو، زاہد بنگالی اور یوسف عرف ٹھیلے والا سمیت جتنے بھی مہرے گرفتار ہوئے سب چیختے، چلاتے رہے کہ انہیں فلاں سیکٹر انچارج، فلاں وزیر، فلاں مشیر اور فلاں صاحب نے جرائم کی دلدل میں دھکیلا لیکن ہر بار پولیس نے ان کی سرپرستی کرنے والوں کو معصوم اور بےگناہ قرار دیا، عدالتوں نے پولیس کے لکھے ہوئے کی توثیق کی اور یہ رسہ گیر بری ہوتے چلے گئے۔ 

مہروں اور پیادوں کا کیا ہے، ایک گرتا ہے تو اس کی جگہ لینے کو کئی آجاتے ہیں۔ بھولے تو وہ عبدالرحمٰن ہیں جو یہ سوچ کر بندوق اُٹھا لیتے ہیں کہ ان پر برا وقت آئے گا تو یہ صاحب لوگ بچا لیں گے۔

زبیر جیسے نوجوان بھی ’’چریا‘‘ ہیں مگر سچ پوچھیں تو ہم سب ’’چریا‘‘ہیں۔ ہم جرائم میں ملوث افراد کے سہولت کاروں کے بچ نکلنے پر عدالتوں کو کوستے رہتے ہیں اور اتنی سی بات نہیں جانتے کہ ان سہولت کاروں کا بھی تو کوئی سرپرست ہوگا کہ نہیں؟ اگر ان کے سہولت کاروں کو عدالتی کارروائی میں گھسیٹا جائے گا تو وہ اپنے سرپرستوں کا نام لینے پر مجبور ہوں گے۔ تو بھائی دھندہ چوپٹ کروائو گے کیا؟ تکلف برطرف،چھوٹی مچھلیوں کو دی گئی سزاؤں پر ہی اکتفا کر لو، بڑی مچھلیاں پھنسیں گی تو مگر مچھ کا بھی نام آئے گا اور مگر مچھ۔۔۔ سمجھ گئے ناں، چریا کہیں کے۔

مزید خبریں :