بلاگ
Time 29 ستمبر ، 2020

محکمہ زراعت کی بچت

فوٹو: فائل 

ن لیگ کی حالیہ تنظیم سازی سے محکمہ زراعت کا کوئی تعلق نہیں، ہو سکتا ہے یہ واقعہ بھی محکمہ زراعت پر ڈال دیا جاتا مگر چونکہ 15 پر دوطرفہ کال کی گئی یعنی کال کرنے والوں میں دونوں فریقین تھے۔

 کچھ ویڈیو کلپس بھی سوشل میڈیا میں کئی شوقیہ فنکاروں نے اپنی اپنی پسند کے گانوں کے ساتھ ڈال دیے، انسان ایک سچ سے بچنے کے لیے کتنے جھوٹ بولتا ہے، اس کا اندازہ تنظیم ساز کے مختلف بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔

پہلی مرتبہ لوگوں کے پوچھنے پر تنظیم ساز کہنے لگا کہ حادثہ ہوا ہے پھر جب ایک ویڈیو سامنے آئی تو اسے تنظیم سازی کا نام دیا گیا، جب یہ سوال ہوا کہ رات کے آخری پہر یعنی سوا تین بجے کونسی تنظیم سازی ہو رہی تھی؟ 

اِس سلسلے میں موصوف پولیس اہلکاروں کو یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اس گھر کی تمام خواتین کے فون قبضے میں لیے جائیں اور میرا فون بھی برآمد کروایا جائے۔

اِس واقعہ کے اور بھی شواہد ہیں، اگر یہ شواہد نہ ہوتے تو پوری ن لیگ اسے محکمہ زراعت سے جوڑ دیتی مگر اِن کی کارروائی تو کہیں نظر ہی نہیں آ رہی، محکمہ زراعت کا لفظ پہلے پہل ملتان کے ایک سیاستدان نے استعمال کیا تھا پھر یہ ن لیگ کے لیے مقبولِ عام بن گیا، اُن کے قائد نے اپنے آن لائن خطاب میں بھی محکمہ زراعت کا ذکر کیا تھا۔

خیر اس واقعہ کی طرف چلتے ہیں، اب جب دونوں نام میڈیا اور سوشل میڈیا پر آ چکے ہیں تو نام لینے میں کوئی حرج نہیں، تنظیم ساز کا نام طلال چوہدری ہے، سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد اُنہوں نے ساری توجہ تنظیم سازی پر مرکوز کر رکھی تھی، حالیہ تنظیم سازی کے بعد وہ لاہور کے نجی اسپتال پہنچے، جب پتا چلا کہ فیصل آباد پولیس بیان لینے آ رہی ہے تو موصوف وہاں سے بھاگ کر اسلام آباد پہنچ گئے۔

اب طلال چوہدری کے لیے دو تین مراحل ہیں، زخموں کو ٹھیک بھی کروانا ہے، پولیس کو بیان دینے سے بچنا ہے اور عزت کی بحالی کا سوال بھی ہے، جڑانوالہ سے قومی اسمبلی کے یہ سابق رکن ایک زمانے میں ق لیگ کا حصہ تھے اور چوہدری پرویز الٰہی کا ’’والہانہ‘‘ استقبال کرتے تھے، استقبال میں ’’بھنگڑا‘‘ بھی شامل ہوتا تھا پھر یہ مبینہ طور پر فیروز خان کے راستے ن لیگ کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ 

اب تنظیم سازی پر ان کا جھگڑا ہو گیا ہے، جن سے جھگڑا ہوا ہے وہ بھی فیصل آباد سے ایم این اے ہیں، قومی اسمبلی کی رکن محترمہ عائشہ رجب علی، مرحوم ایم این اے رجب علی بلوچ کی دوسری اہلیہ ہیں۔ 

عائشہ رجب علی کا تعلق بنیادی طور پر سرگودھا سے ہے، موصوفہ بیگم روبی ٹوانہ اور جناب قاسم ٹوانہ کی صاحبزادی ہیں، اُنکے چچا شوکت ٹوانہ جیل سپرنٹنڈنٹ ہوا کرتے تھے۔

واقفانِ حال مبینہ طور پر بتاتے ہیں کہ پچھلے دو ڈھائی سال طلال چوہدری اور عائشہ رجب علی میں ایک پارٹی اور ایک دھڑے میں ہونے کی وجہ سے خاصی قربت رہی، اب جب دوری ہوئی تو ظاہر ہے پارٹی کے معاملات خراب ہو رہے تھے، تنظیم سازی نہیں ہو رہی تھی، اس واقعہ کے بعد یہ عمل رک گیا ہے۔ اصل صورتحال کو سامنے لانے میں ڈاکٹر شہباز گل کا بڑا کردار ہے۔

ڈاکٹر شہباز گل کے بقول مریم نواز معاملہ دبا رہی ہیں، ممکن ہے شہباز شریف بھی یہی چاہتے ہوں مگر مسلم لیگ ن کا ایک مضبوط مقامی دھڑا یہ چراغ بجھنے نہیں دے رہا۔

اب جب دونوں فریقین اسلام آباد میں ہیں تو پولیس کے لیے بیان حاصل کرنا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس دوران حکومتی ترجمانوں کو بھی خوب موقع ملا ہے۔ اطلاعات کے وفاقی وزیر شبلی فراز کہتے ہیں کہ ’’اپوزیشن رات تین بجے تنظیم سازی کر لے، اب کچھ نہیں ہونے والا‘‘۔ 

پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان ذرا تیکھے مزاج کے ہیں، وہ اپنی شعلہ بیانی کے حوالے سے مشہور ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ ’’رات تین بجے تنظیم سازی کے نتائج ہڈیاں ٹوٹنے کی صورت میں سامنے آتے ہیں، خواتین کو ہراساں کرنے کے معاملات محکمہ اطلاعات پنجاب دیکھے گا‘‘۔

تنظیم سازی کے حوالے سے قومی اسمبلی کے ایک اور رکن کا نام مبینہ طور پر لیا جا رہا ہے، ہمیں اس کی کوئی خبر نہیں۔ خواتین و حضرات! میں نے بڑی باریک بینی سے اس واقعہ میں محکمہ زراعت کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے مگر میں ہر بار بےنیل مرام لوٹا ہوں۔ فیصل آباد سے تو یہی پتا چلا ہے کہ یہاں زرعی یونیورسٹی تو ہے مگر محکمہ زراعت خاص متحرک نہیں۔ جو لوگ اس واقعہ کے پیچھے محکمہ زراعت کو تلاش کر رہے تھے اُن کے خواب بکھر گئے ہیں، اُن کی خواہشات پر اوس پڑ گئی ہے خیر محکمہ زراعت کو مبارک ہو کہ اُن کی بچت ہو گئی ہے۔

رہنمائوں کو معاشرے کا ’’چہرہ‘‘ بہتر انداز میں پیش کرنا چاہئے، مل بیٹھ کے معاشرتی خامیوں کے تدارک کا حل ڈھونڈنا چاہئے۔ آج کالم کے آخر میں غالب کے اشعار پیش کر رہا ہوں، یاد رہے کہ ان اشعار کا تنظیم سازی سے کوئی تعلق نہیں۔ بقول غالبؔ:

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔