بلاگ
Time 16 اکتوبر ، 2020

مگر پیپلز پارٹی ذرا مختلف ہے۔۔۔

فوٹو: فائل 

آج گوجرانوالہ میں میدان سجے گا، بنیادی طور پر یہ ن لیگ کا پاور شو ہو گا، سینٹرل پنجاب کے اِس اہم شہر میں جلسے کی کامیابی کا دار و مدار غلام دستگیر خان کے فرزند خرم دستگیر پر ہے۔ 

اِس جلسے میں گوجرانوالہ ڈویژن کے چھ اضلاع کے علاوہ وسطی پنجاب کے کئی دوسرے اضلاع سے بھی لوگ آئیں گے، پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کی مرکزی قیادت جلسے میں نمودار ہوگی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے وفد کے ساتھ جلسے میں شریک ہوں گے۔

اگر پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کا جائزہ لیا جائے تو پیپلز پارٹی ذرا منفرد اور مختلف نظر آئے گی، پیپلز پارٹی کے مختلف نظر آنے کی بہت سی وجوہات ہیں مگر بڑی وجہ جاننے کے لیے ایک چھوٹا سا واقعہ پیش خدمت ہے۔

80 کی دہائی کے آخری اور نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں محترمہ بےنظیر بھٹو جب بھی نواب شاہ ڈویژن کا دورہ کرتیں تو انجم شاہ اُن کے ساتھ ہوتے تھے، پورے ڈویژن کے چھوٹے بڑے قصبوں میں انجم شاہ گاڑی چلا رہے ہوتے تھے اور محترمہ اگلی نشست پر ساتھ ہوتی تھیں۔ 

انجم شاہ، آصف علی زرداری کے بھی قریبی دوست تھے، اُنہوں نے ایک بات نوٹ کی کہ جب پیپلز پارٹی کے جلسوں میں تحصیل اور ضلعی سطح کے عہدیدار خطاب کرتے تو محترمہ اِس دوران نوٹس لیتی رہتی تھیں، ایک دن گاڑی میں بیٹھتے ہی انجم شاہ نے محترمہ بےنظیر بھٹو سے پوچھا کہ ’’آپ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن ہیں، بہت بڑی لیڈر ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں تو پھر اِن چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں کے پارٹی عہدیداروں کی تقریروں کے نوٹس کیوں لیتی ہیں‘‘؟

کوئی اور ہوتا تو پتا نہیں کیا کہتا مگر بےنظیر بھٹو نے اس کا جواب یوں دیا ’’انجم شاہ! میں پارٹی کے ہر کارکن اور عہدیدار کی تقریر کے نوٹس اس لیے لیتی ہوں کہ یہ چیک کر سکوں کہ اُس نے پیپلز پارٹی سے کیا سیکھا ہے؟‘‘۔ پاکستان میں کسی اور پارٹی کے رہنما کا ایسا وژن بالکل نہیں تھا اور نہ ہی وہ یہ کام کرتا تھا جو محترمہ کرتی تھیں۔ پیپلز پارٹی اِس لیے مختلف ہے کہ یہ جماعت لوگوں کو بہت کچھ سکھاتی ہے، یہ جماعت صرف سیاسی پارٹی نہیں، مکمل ادارہ ہے۔

میں نے پچھلے پچیس تیس برسوں میں پارلیمنٹ کے اندر پیپلز پارٹی کے اراکین سے بہتر پرفارم کرتے ہوئے لوگ نہیں دیکھے، کیا اِس پوری پارلیمنٹ میں اعتزاز احسن جیسا کوئی ہے، جس کی تقریر سے دانشوری جھلکتی ہے، جس نے دو جملوں میں لیگی چوہدری نثار علی خان کو فارغ کر دیا تھا۔ 

کیا اِس وقت پوری پارلیمنٹ میں کسی اور پارٹی کے پاس شیری رحمٰن جیسی لائق فائق خاتون ہے، قومی اور بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والی، پُراعتماد لہجے میں گفتگو کرنے والی شیری رحمٰن جیسی سمجھدار رہنما کسی اور پارٹی میں نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کے لوگ کتاب سے رشتہ نہیں توڑتے، بھٹو صاحب اور بےنظیر بھٹو نے بھی کتابیں لکھیں، اعتزاز احسن، شیری رحمٰن، یوسف رضا گیلانی اور رضا ربانی نے بھی کتابیں لکھیں اور تو اور رحمٰن ملک بھی چار کتابوں کے مصنف ہیں۔ 

سسی پلیچو کو ادب اور ثقافت پر دسترس حاصل ہے، خاص طور پر سندھی ادب اور ثقافت سسی پلیجو کے لہجے میں بولتے ہیں، کیا شازیہ مری قانون سازی میں کسی سے پیچھے رہتی ہیں، کیا راجہ پرویز اشرف اور خورشید شاہ کی تقریریں باقی اراکین سے بہتر نہیں ہیں۔ 

راجہ پرویز اشرف تو کئی زبانوں میں تقریر کرنے کا ہنر جانتے ہیں، پیپلز پارٹی کی تیسری صف میں کھڑے قادر پٹیل بڑے بڑوں کو چپ کروا دیتے ہیں، کیا نوید قمر اور سلیم مانڈوی والا معیشت کے زاویوں سے باقی اراکین سے زیادہ واقف نہیں ہیں، سلیم مانڈوی والا نے اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیوں میں سے اس وقت نقائص نکالے تھے جب باقی سب چپ تھے۔

ہم نے پچھلے پچیس برسوں میں رحمٰن ملک سے بہتر، متحرک اور دلیر وزیر داخلہ نہیں دیکھا، یوسف رضا گیلانی سے زیادہ پارلیمنٹ میں حاضری کا پابند وزیراعظم بھی نہیں دیکھا گیا، ن لیگ کی طرف سے پس پردہ ملاقاتوں کے حوالے سے محمد زبیر کا نام سامنے آیا ہے۔ 

اس سلسلے میں بھی پیپلز پارٹی آگے ہے، پس پردہ مذاکرات میں ڈاکٹر قیوم سومرو سے زیادہ ماہر کسی اور پارٹی کے پاس نہیں۔ سینیٹ میں دبنگ انداز سے بےباک بولنے والا مصطفیٰ نواز کھوکھر پیپلز پارٹی کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے، پنجاب اسمبلی جانتی ہے کہ پوری پنجاب اسمبلی میں سید حسن مرتضیٰ سے بہتر عوامی ترجمانی کرنے والا کوئی نہیں، سید حسن مرتضیٰ پنجابی میں تقریر کرتا ہے مگر عوامی نبض پر ہاتھ رکھنا نہیں بھولتا۔

کیا سندھ سے اُٹھنے والی چار آوازوں میں ناصر شاہ، سعید غنی، مرتضیٰ وہاب اور شہلا رضا کا کوئی توڑ کسی سیاسی جماعت کے پاس ہے؟ کیا مولا بخش چانڈیو کا دبنگ انداز لوگ بھول گئے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو زرداری کی تقریروں میں بھی بہت بہتری آئی ہے اور آصف علی زرداری کی سیاست کے تو اپنے رنگ ہیں۔

خواتین و حضرات! آپ دوسری جماعتوں کی خواتین اراکین سے پوچھ لیں، وہ یہ ضرور کہیں گی کہ خواتین کے حوالے سے پیپلز پارٹی سے بہتر کوئی جماعت نہیں۔ اقلیتوں کے حوالے سے بھی پیپلز پارٹی کا نام سرفہرست ہے۔

اِس جماعت نے اقلیتوں کے لیے بھی بہت کام کیا ہے، موجودہ پارلیمنٹ سے باہر بھی جھانکیں تو مخدوم فیصل صالح حیات، قمر زمان کائرہ، فیصل کریم کنڈی اور چوہدری منظور جیسے اچھی گفتگو کے حامل لوگ کسی اور پارٹی میں نہیں ملیں گے۔ 

اسی طرح سید نیر بخاری، فرحت اللہ بابر اور نوید چوہدری جیسی سمجھدار شخصیات شاید دوسری پارٹیوں میں نہیں ہیں۔ پلوشہ خان ہو، نفیسہ شاہ، شرمیلا فاروقی ہو یا پھر ناز بلوچ، ٹی وی چینلز پر پارٹی کا بھرپور دفاع کرتی ہیں۔

صاحبو! پنجاب کے دولت مندوں نے آمریت کی طاقت کے سہارے پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو بہت کچلا مگر اب وقت کیسے تبدیل ہوا ہے، آج وہی دولت مند طبقہ بلاول بھٹو زرداری کے لئے بڑے جلسے کا اہتمام کر رہا ہے۔ 

اس جلسے سے بلاول بھٹو کا خطاب بہت کچھ سمجھا دے گا لیکن یاد رہے کہ پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہیں، پیپلز پارٹی جمہوریت کو گرنے نہیں دے گی۔ بقول سرور ارمان ؎

ہم تو موجود تھے راتوں میں اجالوں کی طرح

لوگ نکلے ہی نہیں ڈھونڈنے والوں کی طرح


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔