بلاگ
Time 25 اکتوبر ، 2020

عمران خان کے لہجے کی سختی

فوٹو: فائل 

چاپری ڈیم کے افتتاح کے موقع پر شہزاد سلیم نے عثمان بزدار کےلئے یہ شعر پڑھا۔

خان دی تڈھ تے دیکھو آ بزدار کھلاری

ڈبدے ہوئے پنجاب دی بیڑی تار کھلاری

(عمران خان کے زور پر عثمان بزدار نے ڈوبتے ہوئے پنجاب کی کشتی کنارے پر آ لگائی ہے )۔

چاپری ڈیم کا افتتاح عمران خان نے کیا، یہ ڈیم تین ارب روپے کی لاگت سے خٹک بیلٹ کو پانی کی فراہمی کےلئے دو سال میں مکمل ہوگا۔

میانوالی میں بھی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا لہجہ سخت تھا، دراصل دو بیانیوں کی جنگ جاری ہے، ایک طرف ’’ ووٹ کو عزت دو ‘‘ ہے تو دوسری طرف ’’کرپشن کا خاتمہ‘‘ ابھی وہ پوری قوت سے اپنے بیانیے پر کھڑے ہیں۔

پاکستان میں کسی لیڈر نے اپنا بیانیہ سینچنے کے لیے کوئی جدوجہد کی ہے تو وہ شاید صرف عمران خان ہیں، میرے خیال میں ووٹ کی عزت جیسے بیانیے تو ضرورت پڑنے پر بنائے جاسکتے ہیں مگر ان کی شیلف لائف زیادہ نہیں ہو سکتی۔ 

عمران خان کے بیانیے میں زیادہ طاقت ہے، انصاف اور کرپشن کے خاتمے کا بیانیہ عمران خان نے اپنی سیاست کے شروع میں دیا اور نوجوان نسل نے اس بیانیے کو سرمایہ ِ جاں سمجھا، یہ بیانیہ اور اس کی ٹارگٹ آڈیئنس سے مطابقت کا ثبوت یو این ڈی پی کی جانب سے 2018 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ملتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت نوجوان نسل کی آبادی کا تناسب ماضی کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے اور 2050 تک یہ شرح بڑھتی چلی جائے گی، یہی وہ آبادی کا حصہ ہے جو عمران کی توجہ کا مرکز رہی اور ان کی تحریک کی کامیابی کی وجہ بھی۔

یہ بات ہے تو خوش آئند کہ ان کا بیانیہ آگے بڑھانے والوں کی تعداد نصف صدی تک بڑھتی چلی جائے گی، مگر حکومت کیلئے یہ اضافہ سب سے بڑا چیلنج بھی ہے، ہر سال 40 لاکھ نوجوان کام کرنے کی عمر میں داخل ہورہے ہیں۔ 

یعنی حکومت کو ہر سال 9 لاکھ نئی نوکریاں پیدا کرنے کی ضرورت ہو گی، بے شک نوکریوں کے خواب کی تعبیر کا کام ہر سطح پر ہو رہا ہے، پنجاب جسے میں ذاتی حیثیت میں جانچ رہا ہوں وہ عثمان بزدار کی قیادت میں تعبیر کے قریب پہنچ چکا ہے۔ 

وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفتر میں پنجاب اسمال انڈسٹریز کارپوریشن اور پنجاب بینک کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے، یہ نوجوانوں کے بہتر مستقبل پر دستخط تھے، عثمان بزدار اگر یونہی خلوص نیت سے آگے بڑھتے رہے تو ’’نئے پنجاب ‘‘کی منزل دور نہیں۔ 

پنجاب میں 30 ارب کی روزگار اسکیم کا اجرا کردیا گیا ہے، وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ اس اسکیم سے 20 سے 50 سال عمر کے افراد نہایت آسان شرائط پر قرضے حاصل کرسکیں گے، یہ تاریخ کی سب سے بڑی روزگار اسکیم ہے جس سے 16 لاکھ سے زائد خاندان مستفید ہونگے، یعنی 80 لاکھ لوگوں کی معاشی بحالی ممکن ہوگی اور یہ شہری عزت کی روٹی کما سکیں گے۔ 

وزیر اعلیٰ نے اس اسکیم کے ذریعے ایسا لوپ تشکیل دیا ہے جو ایک سے دو اور دو سے چار کے فارمولے سے صوبے میں مزید مواقع پیدا کرے گا، اس اسکیم کے تحت چھوٹے اور درمیانے درجے کے صنعتکاروں کو بھی اپنا کاروبار بحال اور مزید بہتر کرنے کیلئے سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ 

پنجاب اسمال انڈسٹریز اور پنجاب بینک کے درمیان معاہدے کے تحت 1 لاکھ روپے سے لیکر ایک کروڑ روپے تک کے قرضے نہایت کم شرح سود پر حاصل کیے جاسکیں گے، اس اسکیم میں ٹیکسٹائل کے 26 سب سیکٹرز اور 23 مزید شعبوں کے 339 سب سیکٹرز، تجارت اور مینوفیکچرنگ سے متعلقہ کاروبار کے فروغ کے لیے چھوٹے قرضے دیے جارہے ہیں۔ 

اس عمل سے کاٹیج انڈسٹری کے انقلاب کی بھی امید نظر آتی ہے، پنجاب میں اس تاریخی اسکیم کا آغاز ہو چکا ہے، ہزاروں درخواستیں موصول ہوچکی ہیں، یہ قرضے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی حاصل کر رہی ہیں اور خواجہ سرا بھی اس اسکیم سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ 

یہ ہے وہ Inclusive Punjab جو پاکستان میں نئے ٹرینڈ سیٹ کر رہا ہے، اس کے علاوہ دو اور اہم چیزیں ہیں، جہاں فوری ایکشن لینے کی ضرورت تھی، ایک مہنگائی پر قابو پانا، اس کےلیے وزیر اعلیٰ نے صوبے بھر میں سہولت بازاروں کا آغاز کیا، جہاں سے عوام کو ریلیف مل رہا ہے۔ 

تقریباً 300 سہولت بازار فعال کردئیے گئے ہیں، جلد ہی 400 بازار اور فعال کردیے جائیں گے، مصنوعی مہنگائی کی ایک اہم وجہ منڈیوں میں کمیشن ایجنٹوں کا اثرورسوخ بھی ہے، اب کاشتکاروں کی جانب سے صارفین کو ڈائریکٹ فروخت کا نظام ایجنٹس کا رول بھی محدود کررہا ہے، صارفین کے ساتھ کسانوں کے استحصال کا بھی خاتمہ ہو رہا ہے۔ذخیرہ اندوزوں اور گرانفروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے روزانہ کی بنیاد پر ریکوری اور جرمانے ہو رہے ہیں۔ جہاں بھی کوئی دکاندار مہنگے داموں اشیاء ضروریہ فروخت کر رہا ہو تو اس کی فوری طور پر حکومتی ہیلپ لائن پر رپورٹ کی جائے۔

دوسرا مسئلہ بلوچستان، EX-FATA اور گلگت بلتستان سے آئے طالب علموں کا تھا، پنجاب حکومت نے ان بچوں کیلئے 22 ہزار اسکالر شپس کا اعلان کیا ہے اس تاریخ کے سب سے بڑے اسکالرشپ پروگرام کے سبب اب کوئی طالب علم اس وجہ سے واپس نہیں لوٹے گا کہ وہ یونیورسٹی فیس نہیں ادا کرسکتا۔ 

یہ کاوش صوبوں میں ہم آہنگی کو فروغ دیگی، پنجاب حقیقی معنوں میں باقی صوبوں کے لیے بڑا بھائی ہونے کی مثال بنے گا، یہ کام پنجاب یونیورسٹی نے بہت پہلے شروع کیا تھا، وہاں بلوچستان کے تقریباً دوسو لڑکوں اور لڑکیوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے، میں وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد کو مبارک باد دیتا ہوں کہ ان کا یہ کام پنجاب یونیورسٹی سے نکل کر پورے پنجاب میں پھیل گیا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔