بلاگ
Time 08 نومبر ، 2020

وزیر اعظم کچھ اور مضبوط

فوٹو: فائل 

جہانگیر ترین واپس وطن پہنچ گئے، غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق عمران خان نے خود انہیں واپس بلایا، دونوں دیرینہ دوستوں کے درمیان ٹیلی فون پر گفتگو بھی ہوئی، اس سے پہلے عمران خان نے فردوس عاشق اعوان سے بھی رابطہ کیا اور واپس لے آئے کیونکہ ان پر لگائے گئے تمام الزامات بھی جھوٹ ثابت ہو چکے تھے، اس کام میں سیف اللہ نیازی نے اہم کردار ادا کیا۔

کسی زمانے میں سیف اللہ نیازی پر بھی جھوٹے الزامات لگوا کر لوگوں نے عمران خان کو ان سے دور کردیا تھا مگر حقائق جلد سامنے آگئے اور عمران خان نے انہیں بلاکر پارٹی کا چیف آرگنائزر بنادیا۔

اسد عمر کے متعلق شروع کے دنوں میں انہیں یہ باور کرایا گیا تھا کہ وہ وزارتِ خزانہ کے اہل نہیں، انہوں نے ملک میں معاشی تباہی پھیلا دی ہے جس پر عمران خان نے اسد عمر سے خزانہ کی وزارت واپس لے لی مگر اس بات کا عمران خان کو آج تک دکھ ہے اور اس وقت ان کا اسد عمر سے زیادہ با اعتماد وزیر اور کوئی نہیں۔ 

انہیں عامر کیانی کے خلاف بھی کچھ الٹی سیدھی رپورٹیں پیش کی گئی تھیں جس پر ان سے وزارتِ صحت کا قلمدان واپس لے لیا مگر جلد احساس ہوا کہ ان کا بھی کوئی قصور نہیں۔

سو انہیں بلاکر پارٹی کا جنرل سیکرٹری بنادیا، بابر اعوان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، سبطین خان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، سبطین خان اور علیم خان کا قصہ بھی کچھ اسی طرح کا ہی ہے، لوگ ایسی باتوں کو عمران خان کا یو ٹرن قرار دیتے ہیں مگر میں اسے اُن کی خوبی سمجھتا ہوں کہ جب بھی اپنی غلطی کاعلم ہوتا ہے، وہ فوراً اسے درست کرلیتے ہیں۔

بات شروع ہوئی تھی جہانگیر ترین کی واپسی سے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جہانگیر ترین کو مارچ 2021 میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات کے لیے واپس بلایا گیا ہے، عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ سینٹ میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کریں اور یہ کام صرف جہانگیر ترین ہی کر سکتا ہے، میں ذاتی طور پر اس بات کو درست نہیں سمجھتا۔

جب تک اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ ہے انہیں اس طرح کی کوئی پریشانی لاحق نہیں ہو سکتی، یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ حکومت نے چینی کی قیمتوں میں 15 سے 20 روپے کمی کا امکان ظاہر کیا ہے۔

 اس میں بھی جہانگیر ترین کا مشورہ شامل ہے، کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جہانگیر ترین کسی یقین دہانی کے بغیر واپس آئے ہیں مگر میری اطلاعات کے مطابق انہیں صرف اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔

اپنے بیٹے کے ساتھ ان کا پاکستان واپس آنا، واضح الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ انہیں پاکستان میں اب اپنے ساتھ کسی نا انصافی کا کوئی خدشہ نہیں، میں یہ پیشین گوئی پورے یقین سے کرسکتا ہوں کہ مارچ میں علی ترین سینیٹر ہوں گے۔

دوسری طرف حکومت کے اندر موجود جہانگیر ترین مخالف لابی تیز ہوچکی ہے، اسے سمجھ نہیں آرہی کہ اچانک یہ کیا ہوا ہے؟ جہانگیر ترین کیسے واپس آگیا ہے اور مستقبل میں اس کا کیا رول ہے؟ 

بالکل ویسی صورتحال ہے جو فردوس عاشق اعوان کی آمد پر مخالف لابی کو پریشان کرگئی کہ اچانک اسے بلاکر کیسے پنجاب میں اہم ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں، ان دونوں تبدیلیوں کا علم وزیر اعظم ہاؤس اور وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں کسی کو نہیں تھا، یہ مخالف لابی کےلیے سب سے پریشان کن بات ہے۔

پنجاب، خیبر پختونخوا اور وفاق سے لے کر وزیر اعظم سیکرٹریٹ تک کچھ تبدیلیوں کی سرگوشیاں گونج رہی ہیں یعنی عمران خان نے اپوزیشن کے مقابلے کے لیے اپنی صفیں درست کرنا شروع کردی ہیں۔ 

معرکہ جنوری سے لے کر مارچ تک ہونا ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان مارچ 2021 میں سینیٹ میں عددی برتری حاصل کرنے کے بعد اسمبلیاں توڑ دیں گے اور نئے انتخابات کرا کے واضح اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

میں اس خیال سے قطعاً اتفاق نہیں کرتا، عمران خان جس وقت چاہیں پنجاب اور وفاق میں اپنی عددی اکثریت بہت زیادہ بڑھا سکتے ہیں مگر وہ ہارس ٹریڈنگ پر یقین نہیں رکھتے لیکن وفاق اور پنجاب دونوں اسمبلیوں میں ایسے گروپ موجود ہیں جو فارورڈ گروپ کے طور پر سامنے آنا چاہتے ہیں۔ 

بس اک ذرا عمران خان کا اشارہ چاہیے، نون لیگ کو تو ویسے بھی نواز شریف کی تقریر اور اس کے بعد ایاز صادق کی اسمبلی میں گفتگو لے بیٹھی ہے، اوپر سے مریم نواز ان لوگوں کی فہرستیں تیار کراتی پھر رہی ہیں جو پارٹی میں ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ کے بیانیے کے مخالف ہیں۔ 

اسی سبب پیپلز پارٹی نے بھی نون لیگ سے فاصلہ پیدا کرلیا ہے، پچھلے دنوں سینیٹر حافظ حسین احمد کی جانب سے ایک لائیو شو میں ایاز صادق کے بیان پر سخت تنقید کی گئی۔ 

وہ مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی مرضی کے بغیر ایسی باتیں نہیں کر سکتے، یقینا ً مارچ میں مولانا فضل الرحمٰن بھی سینیٹر بننے کےلیے پر تول رہے ہیں، حافظ حسین احمد نے بھی دوبار سینیٹر بننا ہے، صاف لگ رہا ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں نون لیگ بری طرح تنہائی کا شکار ہونے والی ہے۔

بے شک اسٹیبلشمنٹ میں کچھ لوگ عمران خان کے خلاف بھی ہیں مگر زیادہ طاقتور عمران خان کے دوست ہیں، پھر اسی مہینے بہت سے معاملات کا فیصلہ ہوجانا ہے، کئی لوگوں کو نئے عہدے ملیں گے، کئی ریٹائرہو جائیں گے۔

عین ممکن ہے کوئی مستعفی بھی ہو جائے لیکن یہ طے ہے کہ عمران حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی، اسے کوئی خطرہ نہیں!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔