آنکھیں دھوکا دیتی ہیں!

فائل:فوٹو

مجھے ’’ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق ‘‘ پر ترس آتا ہے۔ یہ لوگ بسم اللہ کے گنبد میں رہ رہے ہیں، انہیں علم ہی نہیں کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے ۔ان کے گھروں میں کیا کھچڑی پک رہی ہے جس طرح حکومتیں ’’سب اچھا‘‘ کہہ کر خود کو تسلی دیتی رہتی ہیں، اس طرح یہ بھی پوری طرح مطمئن ہیں کہ انہوں نے اپنے حلقہ اثر میں سب کچھ اپنے تصورات کے مطابق ڈھال لیا ہے۔

ان کا خیال ہے کہ وہ سب لوگ اسلام کے صحیح پیروکار بن گئے ہیں اور مشرقی اقدار میں ڈھل گئے ہیں جنہوں نے خود کو مغربی سے مشرقی وضع قطع میں بدل لیا ہے ۔سوٹ کی بجائے شلوار قمیض پہن رہے ہیں، سر پر ٹوپی رکھتے ہیں، چہرے پر خوبصورت داڑھی بھی سجالی ہے یا لڑکیاں ننگے سر پھرنے کی بجائے حجاب لینے لگی ہیں، چادر اوڑھتی ہیں یا پورا برقع پہنتی ہیں۔ یہ مطمئن ہیں کہ ملک میں شراب پر پابندی ہے۔ ’’بازارِ حسن‘‘ بند ہو چکے ہیں، یہ بہت بھولے لوگ ہیں ۔ بالکل بے خبر ہیں کہ بہت سی صورتوں میں حجاب ،چادر اور برقع کی اوٹ میں بھی وہ سب کچھ ہوتا ہے جوان ’’حفاظتی تدبیر‘‘ کی موجودگی میں بظاہر نہیں ہونا چاہئے۔ صورتحال یہ بھی ہے کہ شراب پینے والے کھلے عام شراب پیتے ہیں ۔کراچی میں تو شراب کھلے عام فروخت بھی ہوتی ہے اور لاہور میں فائیو اسٹار ہوٹلوں اور کلبوں میں آپ پوری سہولت سے اپنا یہ شوق پردے میں رہ کر پورا کرسکتے ہیں حتیٰ کہ پی آئی اے کی فرسٹ کلاس میں آپ پورے سکون سے اپنی بوتل کھولیں، ایئر ہوسٹس سے برف منگوائیں اور منزلِ مقصود تک یہ شوق جاری رکھیں۔ آپ کو اس کی اجازت ہے ۔بازارِ حسن بند نہیں ہوا اب یہ گھروں اور دفتروں تک آ چکا ہے۔ چوری ، ڈکیتی ، ملاوٹ ، رشوت ، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ، فراڈ اور لوگوں کی جائیدادوں پر قبضوں کا سلسلہ غیر شرعی اور غیر مشرقی وضع قطع کے حامل افراد کے علاوہ ’’پارسائوں‘‘ نے بھی شروع کر رکھا ہے۔ میرے معصوم اور بھولے بھالے ثناء خوانِ تقدیسِ مشرق کو علم ہی نہیں کہ جرائم پیشہ لوگ بہروپئے بھی ہوتے ہیں۔ وہ اپنی وارداتیں ایسے بھیس میں کرتے ہیں کہ ان پر شبہ تک نہ ہو۔ سب کچھ بدل گیا ہے لیکن ہم یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

میں جو یہ سب کچھ لکھ رہا ہوں، خود کواکثر تسلی دیتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے لیکن جب کھلی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھتا ہوں تو دل میں ایک ٹیس سی اٹھتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اپنی آنکھیں بند کر لوں تاکہ مجھے یہ ڈراؤنا خواب نظر آنا بند ہو جائے !لیکن آنکھیں بند کرنے سے منظر تو نہیں بدل جاتا الٹا یہ خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں ہم ایسے گڑھے میں نہ جا گریں جس میں سے نکلنا ممکن ہی نہ رہے تو یہ ایک گھناؤنی اور ڈراؤنی سی صورتحال ہے مگر یہ اتنی سادہ نہیں جتنی مجھے اور آپ کو محسوس ہوتی ہے بلکہ یہ بہت پیچیدہ ہے اور اس کے عوامل تہہ در تہہ ہیں، معاشرہ حرص و ہوس کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکا ہے، مہنگائی اور صرف مہنگائی نہیں، بے وقت خواہشات ساری قدروں کو پاؤں تلے کچلتی چلی جا رہی ہیں ۔مذہب سے بے بہرہ طبقہ کے افراد اگر ذاتی اور اجتماعی گناہوں میں غرق نظر آئیں جو کہ نظر آتے ہیں مگر دکھ اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب اس طبقے کی بے عملی سامنے آتی ہے جسے بظاہر ہدایت مل چکی ہے اور یہ بات کہتے ہوئے دل غم واندوہ سے بھر جاتا ہے کہ اب ضمیر فروشی اور ہر طرح کی افروشی ان گھروں پر بھی دستک دے رہی ہے جن کے مکینوں کے شجرہ ہائے نسب میں اس سے بڑا کوئی اور گناہ نہیں تھا، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے دل کو شدید دھچکا لگتا ہے اور یوں اسے تسلیم کرنے کو جی نہیں چاہتا لیکن تلخ حقیقتیں ہماری خواہشات کی پابند نہیں ہوتیں۔ آپ اپنے چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھیں آپ کو ایسے کتنے لوگ نظر آئیں گے جن کے قول اور فعل اور جن کے ظاہر اور باطن میں کوئی تضاد نہ ہو ؟یقیناً ایسے بہت سے لوگ ہمیں دکھائی دیں گے لیکن یہ لوگ دن بدن اقلیت میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔

حکومت کو چاہئے کہ وہ اگر اجتماعی گناہوں اور جرائم کی روک تھام میں سنجیدہ ہے تو معیشت کو بہتر بنانے کے علاوہ ان عوامل پر بھی قابو پانے کی کوشش کرے جو حرص وہوس کی آگ کو تیز کرتے ہیں، اسی طرح صرف ہمارے علمائے کرام ہی نہیں بلکہ ہمارے درمیان موجودہ نیک اور پار سا لوگ جو سچ مچ پابندِ شریعت ہیں اور روحانی اور مشرقی اقدار کے پاسدار ہیں، اِن ریاکاروں کے خلاف ایک مہم چلائیں جو اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں، اِنہیں بتایا جائے کہ این آر او صرف سیاست میں ہو سکتا ہے، مذہب میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ۔اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنا وہ وعدہ ضرور پورا کرے گا جس کے مطابق وہ ظلم اور بدکاری کی بنیاد پر قائم بستیوں کو نیست ونابود کر دیا کرتا ہے اور پھر اس کی زد میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو یہ سب تماشا خاموشی سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔