بلاگ
Time 09 فروری ، 2021

ملک کا والی وارث کون؟

فوٹو: فائل

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی لڑائی جاری ہے، جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، دونوں فریقوں کے بیانات اور تقاریر سے بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے، دونوں طرف سے لفظی وار جاری ہیں، ایک دوسرے پرالزامات کی بوچھاڑ کررہے ہیں، سیاست تو آلودہ ہوہی چکی ہے لیکن کوئی بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کررہا۔ 

اب تو لگتا ہے کہ یہ سیاسی نہیں بلکہ ذاتی لڑائی لڑی جارہی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس لڑائی میں لڑنے والوں کے بجائے ملک اور قوم کا نقصان ہو رہا ہے، حکومت کو بنے ہوئے تقریباً ڈھائی سال کا عرصہ گزر گیا، کیا کوئی میرے جیسے کم فہم کو بتا سکتا ہے کہ اس عرصےمیں پارلیمنٹ نے اس ملک اور قوم کی بہتری کے لیے کون کونسی اور کتنی قانون سازی کی ہے اور پارلیمنٹ کے اجلاسوں پر اس قوم کا کتنا پیسہ خرچ بلکہ ضائع ہوا۔

یہ لوگ پارلیمنٹ میں بھی قانون سازی کے بجائے ایک دوسرے کو برا کہتے اور دست و گریباں رہتے ہیں جیسے کہ جلسوں ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری بیانات میں نظر آتے ہیں، اگر اپوزیشن کسی بات پر مذاکرات کے لیے تیار ہوجاتی ہے تو حکو مت کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن مذاکرات میں این آر او مانگتی ہے۔ 

اگر حکومت کسی معاملہ پر اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دیتی ہے تو اپوزیشن یہ کہہ کر اس دعوت کو رد کر دیتی ہے کہ حکومت ان مذاکرات یا اس معاملے سے اپنا فائدہ لینا چاہتی ہے۔ گویا ’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی،  ایسے حالات کا ہی نتیجہ ہے کہ عوامی مسائل کے حل کے لیے فریقین کے پاس نہ فرصت ہے نہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔ 

حکومت کو آئے ہوئے ڈھائی سال کے عرصہ میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا ہے کہ فریقین نے ایک دوسرے کے سیاسی لتے نہ لیے ہوں، اگر چہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی حب الوطنی پر کسی پاکستانی کو کوئی شک نہیں ہے، لیکن دونوں ایک دوسرے کا تعلق دشمن ممالک کے ساتھ جوڑتے ہیں، تو پھر قوم کیا سمجھے۔

اس ملک کے دعویدار توسب ہیں لیکن ابھی تک سوائے افواج پاکستان کے کوئی اس ملک کا والی وارث نظر نہیں آتا، دونوں فریق اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے ہی کوشاں نظر آتے ہیں، کسی کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ ملک کی سرحدوں پرکیا حالات ہیں۔ 

دشمن پاکستان کے اندر اور باہر سازشوں کے کیسے کیسے جال بچھا رہے ہیں اور آنیوالا وقت کن سنگین خطرات کی نشاندہی کررہا ہے؟ سیاسی رہنماؤں کو یہ بھی ادراک نہیں ہے کہ اس خطے میں کیا ہورہا ہے اور اگر یہ ادراک ہے تو پھر یہ احساس کیوں نہیں ہے کہ خطے کی بننے والی صورتحال کے ملک پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟ کیا ان تمام حالات وواقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے؟ 

کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر خلوص نیت سے اس ملک اور قوم کی ترقی وخوشحالی کی منصوبہ بندی کر سکیں؟ آخر کیوں اپوزیشن کو حکومت گرانے اور حکومت کو اپوزیشن کو دیوار سے لگانے اور لتاڑنے سے ہی مطلب ہے؟ قوم نے تو دونوں کو ووٹ دے کر اس لیے ایوانوں میں بھیجا تھا کہ یہ رہنما ہمارے لیے آسانیاں پیدا کریں گے لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے سیاسی رہنما ہمیں اور ہمارے مسائل بھلاکر اپنے اپنے سیاسی مفادات کی لڑائی لڑنے لگے۔ 

حالت تو یہ ہے کہ یوم یکجہتی کشمیر منانے کے لیے پارلیمنٹ میں مشترکہ قرار داد تک منظور نہیں ہو سکی، آزاد کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے تشریف لے جانے والے ہمارے سیاسی رہنما وہاں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے رہے، کیا پیغام دیا ہم نے کشمیریوں کو اور ان پر ظلم ڈھانے والوں کو؟

میری رائے میں موجودہ سیاسی خرابی اور حالات کی ذمہ داری حکومت اور اپوزیشن دونوں پر ہے، حکومت نے ابتدا کی اور اپوزیشن انتہا کرنا چاہتی ہے اگر حکومت صبروتحمل سے کام لےکر ملک کی ترقی، معیشت کی مضبوطی اور عوام کی خوشحالی پرتوجہ دیتی توآج نہ مہنگائی اور بیروزگاری کا یہ عالم ہوتا نہ ملک کی معاشی حالت کمزور ہوتی، اور اگر اپوزیشن صرف ملکی ترقی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالتی تو شاید ان کو لانگ مارچ کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ 

سینٹ الیکشن کا کیا مطلب ہے، یہ کیسی جمہوریت ہےجہاں اس طرح کے معاملات غیر جمہوری طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کو اوپن بیلٹ سے کروانے پر اعتراض کیوں ہے۔ 

کیا اپوزیشن اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ خفیہ رائے شماری میں حکومتی اور اس کے اتحادیوں میں سے کچھ اپوزیشن کو ووٹ دیدیں گے، کیا حکومت کو یہ خطرہ ہے کہ اس کے ارکان کھسک سکتے ہیں، یہ تو آئینی معاملہ ہے اور اس وقت سپریم کورٹ میں ہے، الیکشن کمیشن نے بھی اپنی رائے اور رپورٹ عدالت میں جمع کرادی ہے، تو عدالتی فیصلے سے پہلے ہی صدارتی آرڈنینس اور وہ بھی مشروط لانے کی کیا جلدی تھی۔ 

شاید جو اپوزیشن سمجھتی ہے یا حکومت ویسا کچھ بھی نہ ہو لیکن ایک طرف یقین دوسری طرف خطرہ والی صورتحال سے آئینی بحران پیدا کرنے یا پیدا ہونے سے نقصان ہوگا فائدہ نہیں۔

یہ جو کچھ ملک میں ہورہا ہے اس کی بنیادی وجہ نظام کی ناکامی ہے اور اسی تناظر میں دیکھا جائے توملک کی ترقی اور قوم کی خوشحالی کے لیے نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے، ورنہ سیاستدانوں کا اس طرح ہر وقت دست و گریباں ہونا مزید نقصان کا باعث ہوگا، ملک اور قوم کے ہمدردوں کو ہی سوچنا ہے کہ یہ تماشہ اب ختم ہونا چاہئے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔