بلاگ
Time 12 فروری ، 2021

ملازمین کا احتجاج اور پی ڈی ایم

فوٹو: فائل

لاہور سے اسلام آباد پہنچا تو شہرِ اقتدار کا لہجہ بدلا بدلا محسوس ہوا،فواد چوہدری کے دفتر سے نکل کر پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر جانے لگا تو پولیس نے روک لیا کہ آگے نہیں جا سکتے، شیلنگ ہورہی ہے۔ 

یہ دونوں آفس شاہراہِ دستور پر واقع ہیں، دونوں دفاتر میں تین چار منٹ کی ڈرائیو کا فاصلہ ہے، یہ فاصلہ گھنٹوں میں بدل گیا، یہ وہ علاقہ ہے جسے ریڈ زون کہتے ہیں، شبلی فراز کو دیکھا جو ملازمین کے ہجوم میں کھڑے تھے اور انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے مگرانہیں بھی احساس ہورہا تھا کہ ہم کچھ لیٹ ہیں۔ 

یہ سمجھانے والا کام حکومت کو دوچار دن پہلے کرنا چاہیے تھا، شبلی فراز سے دو دن پہلے لاہور میں بھی ملاقات ہوئی تھی جہاں وہ سندس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چلنے والے پروجیکٹس کا معائنہ کررہے تھے۔ 

انہوں نےتھیلیسمیا(جسم میں خون نہ بننا) اورہیموفیلیا (خون بہنے کا مرض)کے مریض بچوں اوربچیوں سےبھی ملاقات کی، سندس فائونڈیشن کی بنیاد منو بھائی نے رکھی تھی، اس کی سرپرستی آج کل سہیل وڑائچ کرتے ہیں ،معروف کالم نگار آصف افعان بھی اس فاؤنڈیشن میں بہت متحرک ہیں، اس کے صدر محمد یاسین خان ہیں۔

رات کا ڈنر قاسم خان سوری نے اسلام آباد کلب میں دیا ہوا تھاجس میں پی آئی او سہیل علی خان اور پی ٹی وی کی ڈائریکٹرپروگرام کنول مسعود بھی موجود تھیں، انہیں بھی یہاں پہنچنےمیں خاصا وقت لگ گیا تھا، کنول مسعود کی آنکھوں میں آنسو گیس کے اثرات واضح تھے، پتہ چلا کہ اتنی زیادہ شیلنگ کی گئی کہ دھواں پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر کی عمارت میں در آیا تھا۔ 

ایک اور دوست جس نے چار پانچ بجےاسلام آبادپہنچنا تھا اور رات کو ڈنر میں شرکت کرناتھی، اس سے جب پوچھا کہ کہاں ہو تو کہنے لگا ،پچھلے چار گھنٹوں سے موٹر وے کے اسلام آباد ایگزٹ سے نکل کرتھوڑا آگے رُکا ہوا ہوں، سڑک پر احتجاج کرنے والے ملازمین موجود ہیں، نہ گاڑی پیچھے جا سکتی ہے نہ آگے۔ وہ کوئی ساڑھے آٹھ بجے ہمارے پاس پہنچ سکا۔

میری اس سلسلے میں شہباز گل سے بھی بات ہوئی، وہ بھی پریشان تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے، یہ احتجاج کرنے والے پڑھے لکھے لوگ ہیں، ان کے ساتھ بات چیت آسانی سے ہو سکتی تھی، قاسم خان سوری کا بھی یہی خیال تھا کہ مجھے بتاتے تومیں ان سے معاملات طے کرلیتا۔ 

بہرحال آخر کار معاملہ طے پا گیا، ظلم کی بات یہ ہے کہ حکومت ملازمین کی عبوری طور پر تنخواہیں 20 فیصدبڑھا رہی تھی، ہر بات طے ہو چکی تھی ،ایسے میں احتجاج پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کیوں ؟ شیخ رشید نے یہ حکم کیوں دیا تھا۔ 

دن کے بارہ بجے پولیس نے جب مجھے اس طرف جانے سے روکا تو یہی کہا کہ آپ ادھر نہ جائیں کیونکہ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ ہونے والی ہے، ہمیں اس کا اوپر سےحکم مل چکا ہے، یعنی مذاکرات ہو رہے تھے اور پولیس پہلے کہہ رہی تھی کہ یہ ناکام ہونے ہیں اورابھی ہم نے شاہراہ ِ دستور پر پانی پت کی ایک سو اٹھارہویں لڑائی شروع کرنی ہے، حالانکہ شخ رشید جب مذاکرات کےلئے آئے ملازمین نےان کا بہت اچھے انداز میں استقبال کیا۔

پنجاب میں بھی ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے پر غور ہورہا ہے، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے حکم دیا ہے کہ چھوٹے ملازمین کی تنخواہیں فوری طور پر بڑھائی جائیں، وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سےبات ہوئی تو انہوں نے یہ خوش خبری سنائی کہ پنجاب حکومت میں پہلی زرعی پالیسی کی منظوری دے دی گئی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت کاشتکاروں کیلیے 300ارب روپے کے منصوبوں کا آغاز کیا گیا ہے، ماڈل زرعی منڈیوں کیلئے 21ارب 27 کروڑ روپے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

پنجاب سیڈ کونسل کے تحت مختلف فصلوں کی102 نئی اقسام کاشت کیلیے منظور کی گئی ہیں، کاشتکاروں کو61ارب روپے کے بلاسود قرضے جاری کیے جا رہےہیں،  زرعی اجناس کی وافر پیداوار حکومت پنجاب کا ٹارگٹ ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مالی سال 2020-21کے دوران 70ہزار خواتین اور مزارعین کو بلا سود قرض فراہم کیا گیا ہے، بارانی علاقوں میں 25 منی ڈیمز کی تعمیر مکمل کی گئی ہے۔

زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت حکومت ہزاروں ٹریکٹر کاشت کاروں کو بہت ہی کم سود پر دینے کا حکم دےچکی ہے، پہلے حصے میں پانچ ہزار ٹریکٹر دئیے جارہے ہیں جس کے لیے بارہ ایکٹر زمین بینک کو گروی رکھنے کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔

اس پروگرام کے تحت 15اضلاع میں کاشتکاروں کو کم قیمت آلات فراہم کرنے کا آغاز کیا گیا ہے، مشینری پر سرکاری تعاون سے سبسڈی فراہم کی جائے گی جس کا مقصدفی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرناہے۔

اطلاعات کے مطابق اپوزیشن نے ملازمین کی لیڈر شپ سے رابطہ کرلیا ہے اور کوشش جاری ہے کہ حکومت اور ملازمین کے درمیان جو مذاکرات کامیاب ہو چکے ہیں ،وہ ناکام بنا دئیے جائیں۔ 

ملازمین کی اس احتجاجی تحریک کو ملکی سطح پر پھیلایا جائے، خاص طور پر پی ڈی ایم والوں کی خواہش اور کوشش ہے کہ ملازمین کا احتجاج کسی طرح وہ ہائی جیک کرلیں، مولانا فضل الرحمٰن نے باقاعدہ پریس کانفرنس کر کے کہا ہے کہ ’’وہ سرکاری ملازمین کے مسائل سے آگاہ ہیں، ہم ان کے احتجاج کا حصہ بنیں گے‘‘۔دوسری طرف ملازمین کی کوشش ہے کہ ان کااحتجاج سیاسی رنگ اختیار نہ کرے۔ اب دیکھتے ہیں کہ پی ڈی ایم والے کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔