بلاگ
Time 19 فروری ، 2021

بھارت کیخلاف عالمی اقدامات کی ضرورت

فائل:فوٹو

سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر گیا بھارت نے کشمیر پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ کشمیر صرف کشمیریوں کا ہے۔ لیکن بھارت نے بندوق کے زور پر 80لاکھ کشمیریوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ لاکھوں بھارتی فوجی کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ 

گزشتہ 18ماہ سے تو بھارت نے لاکھوں کشمیریوں کو محصور کر رکھا ہے۔ نریندر مودی ایک عذاب کی صورت میں کشمیریوں پر مسلط ہے۔ مودی کے دوسرے دور حکومت میں تو کشمیریوں سے ان کی شناخت اور زمینیں چھیننے کے لئے مختلف کالے قوانین بھی نافذ کئے گئے ہیں۔ کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

دنیا میں اس طویل ترین محاصرے کی اور کوئی مثال نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی جتنی بدترین پامالی بھارت مقبوضہ کشمیر میں کر رہا ہے اس سے مودی نے ہٹلر کی یاد تازہ کر دی ہے۔ بلاشبہ مودی موجودہ دور کا ہٹلر ہے۔ بھارت نے نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خطے کے امن کو بھی دائو پر لگا دیا ہے۔

 کیا عالمی طاقتوں کو آزاد بین الاقوامی میڈیا ،اپنے سفارت خانوں اور مخصوص افراد کے ذریعے یہ خبریں اور اطلاعات نہیں مل رہیں کہ بھارت نے بندوق کے زور پر کس طرح بےگناہ کشمیریوں کی زندگیاں اجیرن اور ان کی اپنی سرزمین ان کے لئے جہنم بنائی ہوئی ہے۔ 

پاکستان مسلسل تمام بین الاقوامی فورمز پر دنیا کو بتانے بلکہ جگانے کی کوششیں کرتا ہے کہ بھارت کس طرح کشمیریوں کے حقوق سلب کر کے اور ظلم و بربریت سے انسانی حقوق کی بدترین پامالی کر رہا ہے۔ خود اقوام متحدہ کی فائلوں میں مقبوضہ کشمیر کے بارے میں قراردادیں عرصہ دراز سے پڑی ہیں۔

حال ہی میں پاکستان نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی علمبرداروں کو جو ڈوزیئر پیش کیا ہے اس میں ثبوتوں کے ساتھ تمام تفصیلات درج ہیں کہ بھارت کس طرح نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کیلئے ناسور بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس ڈوزیئر میں یہ بھی تفصیلات موجود ہیں کہ بھارت پاکستان میں کس طرح شیطانی کارروائیاں کرتا ہے۔ اس کے باوجود عالمی طاقتوں کی خاموشی سے کیا یہ مطلب لیا جائے کہ ان طاقتوں نے بھارت کو بدمعاشی کرنے اور خطے کے امن کو تباہ کرنے کا لائسنس دیا ہوا ہے ؟

کیا دنیا بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹوں سے بےخبر ہے۔ کیا دنیا کے اہم ممالک نے اب تک پاکستان کے ڈوزیئر کا مطالعہ نہیں کیا ۔ کون نہیں جانتا کہ افغانستان میں قائم بھارتی سفارت خانے اور قونصلیٹ دفاتر دہشت گردوں کی تربیت و اعانت کی آماجگاہیں ہیں، کیا قندھار میں موجود ’’را‘‘کے افسران دہشت گردوں کے اعانت کار نہیں ہیں۔ جن کو افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کی مدد بھی حاصل ہے ۔

قندھار ،ننگر ہار اور کنٹر میں دہشت گردوں کےتربیتی کیمپ قائم ہیں۔ بلوچستان میں اب تک دہشت گردی کی جتنی بھی وارداتیں ہوتی ہیں ان میں بھارت ملوث ہے جس کے شواہد موجود ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی اور اس نوع کے دیگر گروہوں کو مالی معاونت اور تربیت کے علاوہ دہشت گردی کیلئے اسلحہ بھارت ہی فراہم کرتا ہے۔ بھارت نے افغان خفیہ ایجنسی کے تعاون سے اب تک پاکستان میں دہشت گردی کی ہزاروں کارروائیاں کی ہیں۔ بھارت کے دفاعی مشیر اجیت دوول کا گزشتہ مہینوں میں خفیہ دورہ افغانستان بھی اسی سلسلے میں تھا۔

یہ اب خفیہ نہیں رہا ہے کہ اجیت دوول کے دورے کے مقاصد کیا تھے۔افغانستان میں اس نے کن کن لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان ملاقاتوں میں کیا کیا معاملات زیر بحث آئے۔ اجیت دوول کے اسی دورے کے بعد پاکستان میں خصوصاً بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا۔ بھارت کو معلوم ہے کہ بلوچستان کی پاکستان کیلئے کیا اہمیت ہے اور موجودہ حکومت بلوچستان کی ترقی کیلئے کیا کیا اقدامات کر رہی ہے۔

 بہ الفاظ دیگر بلوچستان کی ترقی و خوشحالی پاکستان کے اہم ترقیاتی منصوبوں میں سر فہرست ہے۔سی پیک پر تیزی سے کام جاری ہے۔ سی پیک کا بڑا اور اہم حصہ بلو چستان میں ہے۔ گوادر بندرگاہ بلوچستان کی ترقی کیلئے خاص اہمیت کی حامل ہے۔بھارت بلوچستان میں امن و آشتی کی فضا خراب کر کے وہاں کی ترقی کو روکنے کیلئے سرگرم ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں میں بھی بھارت افغان، خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کی مدد سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ ان کے علاوہ بھی بعض دیگر گروہ افغانستان سے ملحقہ پاکستانی سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتیں کرتے ہیں۔

اب بھی وقت ہے کہ عالمی طاقتیں اور انسانی حقوق کے دعویدار جاگ جائیں۔ معاشی مفادات پر انسانی مفادات کو ترجیح دیں ورنہ بھارتی اقدامات بہت بڑی تباہی کے موجب بن سکتے ہیں۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ ڈس انفو لیب رپورٹ، پاکستان کے خلاف بھارتی ریشہ دوانیوں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور ظلم و بربریت کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے علاوہ دیگر اہم بین الاقوامی فورمز پر اجاگر کرے اور اس مقصد کے لئے صرف بیانات پر اکتفا نہ کرے بلکہ جامع اور ٹھوس حکمت عملی تشکیل دی جائے چونکہ اس سلسلے میں پاکستان کی اخلاقی اور قانونی حیثیت بہت مضبوط ہے۔ 

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان ’’امن کی وجہ سے نشریات کے استعمال سے متعلق بین الاقوامی کنونشن‘‘ کے تحت1936کے آرٹیکل 3،(1اور 2)اور آرٹیکل 4پر دستخط کر سکتا ہے۔ پاکستان معاہدوں کے قانون 1969کے آرٹیکل 33کی بنیاد پر ویانا کنونشن کی بھارتی خلاف ورزیوں کے خلاف بھی درخواست دے سکتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔