نیا عمران خان

فائل:فوٹو

قومی اسمبلی کی راہداریاں اپوزیشن نے اپنے طور پر ویران کر دیں مگردوسری طرف سے تمنا ہی یہی تھی ’’گلیاں ہوجان سنجیاں تے وچے مرزا یار پھرے۔‘‘ اپوزیشن میں سے صرف محسن داوڑ آئے ہوئے تھے۔ پرویز خٹک کافی دیر ان سے گفتگو کرتے رہے۔ مراد سعید اور فواد چوہدری بھی محسن داوڑ کے پاس گئے اور خوش آمدید کہا۔

 وزیر اعظم نے اراکین کے ساتھ ناشتہ کیا۔ پی ٹی آئی کے علاوہ مسلم لیگ ق، بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کے اراکین ناشتے میں شریک ہوئے، عامر ڈوگر ایم این ایز کو جمع کرتے دکھائی دئیے۔ عامر لیاقت نے وزیر اعظم کی تقریر سے پہلے نعت پڑھی، اسپیکر لابی میں وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر اعلیٰ بلوچستان، گورنر سندھ اور فردوس عاشق اعوان تشریف فرما تھیں۔ 

وزیر اعظم لیڈی لیڈز میں گئے جہاں قاسم سوری، اسد عمر، حماد اظہر، مراد سعید، فواد چوہدری، شبیر علی قریشی کی بیگمات کو سلام کیا۔ اس کے بعد اتحادی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز شاہ زین بگٹی، غوث بخش مہر، شیخ رشید، ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی، فہمیدہ مرزا کے پاس گئے۔ سینیٹ انتخاب کا بائیکاٹ کرنے والے جماعت اسلامی کے رکن عبدالاکبر چترالی بھی ایوان میں موجود تھے۔

اپوزیشن ارکان نے میڈیا کوریج کےلئے اپنا تماشا اسمبلی ہال کے باہر لگا رکھا ہے ۔ڈی چوک پر میچ جاری ہے ۔ ایک سابق وزیر اعظم نے پی ٹی آئی کے ایک کارکن کو تھپڑ مار دیا (پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلا واقعہ ہے ) مریم اورنگ زیب کے ساتھ بھی کارکنوں کا جھگڑا ہوا۔ احسن اقبال کو جوتا پڑ گیا۔ کہیں خاصی ہاتھا پائی ہوئی کہیں کم ہوئی۔

 اپوزیشن تکلیف میں ہے کہ ایک پہلے والی جیت (جس کی قیمت ایک ارب روپے سے زیادہ بتائی جا رہی ہے) آج ہار میں بدل چکی ہے۔ عمران خان نے جیسے ہی اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا تو اپوزیشن کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آگے سبکی ہی سبکی ہے، پاکستانی جمہوریت کی تاریخ میں یہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے خود کہا کہ میں دوبارہ اعتماد کا ووٹ لوں گا ۔ سواپوزیشن نے اجلاس سے بائیکاٹ کردیا اور اپنی تمام تر توجہ پنجاب حکومت کی طرف مبذول کرلی ۔

میرے خیال میں وہ 16 ارکان جو فروخت ہوئے ہیں۔ انہیں معاف کر دینا چاہئے۔ صبح کا بھولا، شام کو واپس آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ ویسے مجھے لگتا نہیں کہ عمران خان انہیں معاف کریں گے۔ ان کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔ اپوزیشن کو پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ عمران خان کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ 

سو یہ سوچا گیا کہ چند چوہوں کی مدد سے بزدار حکومت ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ بلاول بھٹو نے بھی کہہ دیا ہے کہ پہلے ہمیں پنجاب بچانا ہے مگر یہ بھی اُن کی خام خیالی ہے۔ قاف لیگ کے بغیر پنجاب میں اپوزیشن بزدار حکومت کےخلاف کچھ نہیں کر سکتی اور اگر اپوزیشن حکومت کے اتحادیوں کو ساتھ ملا سکتی تو پنجاب میں کیا مرکز میں بھی تبدیلی لائی جا سکتی تھی۔

اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد عمران خان اور زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں۔ بقول شیخ رشید ’’کل نئی سیاست میں ایک نیا عمران خان ہوگا۔‘‘اور اس کا وسیم اکرم پلس بھی کل سے خوفناک باؤلنگ کا آغاز کر رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت سیاست میں بدلنے والی ہے۔ اب کرپٹ عناصر کے خلاف ایک بڑی جنگ کا آغاز ہونے والا ہے ۔

پہلی بار حکومت اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔چوہوں کو بھی انجام تک پہنچایا جائے گا اور وہ جنہوں نے لندن میں رقم وصول کی ہے، وہ بھی بے نقاب ہونے والے ہیں۔ ڈسکہ پر شور اور یوسف رضا گیلانی پر سکوت بھی کسی طوفان کا پیشہ خیمہ بننے والا ہے۔ مجھے عمران خان کو دیکھ کر ایسا لگا ہے جیسے سوئے ہوئےشیر کو جگا دیا گیا ہے۔ آنے والے کل میں عمران خان وہ نہیں ہوگا جیسا پچھلے اڑھائی سال رہا۔ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔

 تمام سیاسی بزرجمہر کہتے ہیں کہ عمران خان نواز شریف اور آصف علی زرداری کی کرپشن کو بھول جائیں اور آگے بڑھیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان نے22 سال پہلے جو انصاف کی تحریک شروع کی تھی، وہ اس سے دستبردار ہوجائیں ،یہ کیسے ممکن ہے۔ عمران خان آج سے پھر حسن نثار کے دئیے ہوئے ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ کے وژن پرچلنے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں ۔

وہ اپنے تمام دوستوں کو واپس بلا رہے ہیں جن میں ہارون الرشید اور جہانگیر ترین جیسے اہم نام شامل ہیں۔ کابینہ میں بھی رد و بدل کا قوی امکان ہے۔ ان کے اسپیشل اسسٹنٹ بھی تبدیل ہونگے۔ ایم این ایز کو زیادہ ذمہ داریاں ملیں گی۔ حفیظ شیخ کی بجائے وزارت خزانہ کسی اور کے حوالے کی جائے گی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حفیظ شیخ کو رہنا چاہئے کیونکہ وہ ایک ٹیکنو کریٹ ہیں مگر سوال پیدا ہوا تھا کہ وہ ٹیکنو کریٹ تھے تو انہیں سینٹ کے انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہئے تھا۔ عامر کیانی کے دوبارہ وزیر بنائے جانے کا امکان ہے۔ سیف ﷲ نیازی کو بھی کوئی بڑا عہدہ ملنے والا ہے۔ مونس الٰہی کے بھی وزیر بننے کے امکانات ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔