وزیراعظم صاحب! صرف احتساب کے نعروں سے ووٹ نہیں ملتے

ڈھائی سال کے عرصے میں حکومت کی کارکردگی سے جو مایوسی عوام کو ہوئی وہ اب انتخابی نتائج میں واضح نظر آ رہی ہے۔

کراچی شہر میں پلے بڑھے ہونے کی وجہ سے جو ایک تعلق یہاں کی ٹوٹی ہوئی سڑکوں، لٹکتی ہوئی تاروں، گندگی کے پڑے ڈھیروں اور ٹوٹے پھوٹے انفراسٹرکچر سے ہے اس پہ مجھے خود بھی حیرانی ہوتی ہے لیکن شاید جن گلیوں اور کوچوں میں آپ کا بچپن گزرا ہو وہاں سے محبت کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ میں اب اسلام آباد میں رہتی ہوں لیکن آج بھی کراچی کو اپنا شہر مانتی ہوں۔ جیسے آپ اپنے بچوں کو لاکھ کوسیں لیکن کوئی اور ان کو کچھ کہے تو اچھا نہیں لگتا اسی طرح کراچی سے باہر رہنے والے لوگ جب اس کی پسماندگی کا ذکرکرتے ہیں تو دکھ ہوتا ہے۔ 

مجھے یاد ہے کہ پچھلے سال جب بارشیں ہوئی تو اس شہر کا کوئی علاقہ نہ تھا جو تباہی کا منظر نہ پیش کر رہا ہو۔ ابلتے ہوئی نالے، ڈوبی ہوئی سڑکیں، کے ای کا درہم بر ہم ہوا نظام اور ان سب کے نتیجے میں ہونے والی حلا کتوں کو دیکھ کر جو دکھ اور تکلیف ہوئی اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔

انہی دنوں وزیر اعظم کراچی تشریف لائے تھے اور صوبائی حکومت کے ساتھ بیٹھ کر یہ وعدے کیے تھے کہ اب کراچی کے لیے وفاق اور صوبائی حکومت مل کر کام کریں گے۔ چونکہ ہم کسی نہ کسی سانحہ کے بعد ہی جاگتے ہیں تو اس دفعہ بھی حکومت نے کراچی کی ترقی و تعمیر کے لیے1100 ارب کے پیکج کا اعلان کیا۔ یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ وزیر اعظم نے پیکج کا اعلان کیا۔ 2019 میں بھی انہوں نے 162 ارب روپے کا پیکج کراچی کے لیے مختص کیا تھا جس کے اندر 18 پروجیکٹس شروع ہونے تھے جس میں سے10 پبلک ٹرانسپورٹ اور باقی پانی اور سیوریج کے لیے تھے۔ 

انہی تمام مسائل کے حل کے لیے 2018 میں کراچی کی عوام نے پی پی پی اور ایم کیو ایم سے مایوس ہو کر پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی کی 14 نشستیں اس امید سے جتوای تھیں کہ اس بار شاید وہ پارٹی جو وفاق میں حکومت بنائے گی وہ ہی اس شہر کو پسماندگی سے نکال سکے گی۔ لیکن این اے 249 کے انتخابات میں کراچی کی عوام نے یہ بتا دیا کہ تمام حکومتی وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ نہ گرین لائن شروع ہوئی نہ پانی اور سیوریج کے مسائل بہتر ہوئے۔ ڈھائی سال کے عرصے میں حکومت کی کارکردگی سے جو مایوسی عوام کو ہوئی وہ اب انتخابی نتائج میں واضح نظر آ رہی ہے۔

پچھلے چند مہینوں میں 10 ضمنی انتخابات ہوئے لیکن پی ٹی آئی وفاق میں حکومت ہونے کے باوجود صرف ایک سیٹ اپنے نام کر سکی۔ حال ہی میں ڈسکہ، نوشہرا، گجرانوالا میں ن لیگ نے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو شکست دی۔ پھر پی پی پی نے سندھ میں دو صوبائی سیٹیں اپنےنام کی، پلوچستان کے ضمنی انتخابات میں جے یو آئی نے پی ٹی آئی کو شکست دی۔ پھر سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی سیٹ سے پی ٹی آئی کے حفیظ شیخ کو شکست ہوئی۔ ایک کے بعد ایک بڑا اپ سیٹ حکومت کے لیے پچھلے کچھ عرصے میں نظر آیا۔ چند ہفتے پہلے ہی ڈسکہ میں کم مارجن سے ہار کو اپنی کامیابی سمجھنے والوں کو، این اے249 میں اس قدر بری شکست کے بعد ماتم منانا چاہیے۔ یہ انتخابات وزیر اعظم کے لیے واضح اشارہ ہیں کہ صرف احتساب کے نعرے سے ملک نہیں چلتے اور نہ ہی جیلوں میں ڈالنے سے ووٹ ملتے ہیں۔ عوام سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرنے اور بہتر کارکردگی دکھانے کے علاوہ اب وزیر اعظم کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔

این اے249 میں پی ٹی آئی تو ہاری ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اس الیکشن کے بعد مولانا فضل رحمان بھی پی ڈی ایم کو متحد کرنے میں ہار مان جائیں گے۔ پہلے اپوزیشن لیڈر کے معاملے پہ اور اب ان انتخابات میں جس طرح سے پی پی پی اور ن لیگ نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کی اس سے ان کے درمیان فاصلے اور بڑھ گئے ہیں۔ انہی انتخابات کے لیے شاہد خاقان نے پی پی پی کی قیادت سے ملاقات کی تھی اور ان سے گزارش کی تھی کہ وہ اس سیٹ پہ ن لیگ کا ساتھ دیتے ہوۓ اپنا بیٹھا لیں لیکن انہوں نے یہ گزارش مسترد کر دی۔ اس کے چند روز بعد پی پی پی کی قیادت نے ن لیگ کو حمایت کی آفر کی تو انہوں نے اسے لینے سے انکار کر دیا۔

اس انکار کے بعد پی پی پی کی قیادت نے بھی یہ ٹھان لی کہ وہ ن لیگ کو شکست دے کر دکھائیں گے۔ مولانا بھی سوچتے ہوں گے کہ پی ڈی ایم آج متحد ہوتی اور یہی الیکشن دونوں جماعتیں مل کرلڑتی تو ایک بڑے مارجن سے اپنے حریفوں کو شکست دے سکتی تھیں۔ لیکن پی پی پی نے پہلے سینیٹ سیٹ پر گیلانی کو جتواکر اور اپوزیشن لیڈر بنا کر، پھر این اے 249 سیٹ اپنے نام کر کے یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ پی پی پی کو پی ڈی ایم کی ضرورت ہے یا پی ڈی ایم کو پی پی پی کی۔

یہ بھی پڑھیں

قومی اسمبلی کی یہ سیٹ تو پی پی پی نے حاصل کر لی لیکن افسوس کہ انتخابات اس بار بھی متنازع ہی ہوئے۔ الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر پھر سے کئی سوالات اٹھ گئے ہیں۔ کسی بھی حلقے میں صاف اور شفاف انتخابات کرانا ان کی ذمہ داری ہے۔ لیکن وہ اس ذمہ داری کو مستقل مزاجی سے پورا نہیں کر پا رہے۔ ماضی قریب میں ڈسکہ الیکشن کی مثال پوری قوم کے سامنے ہے۔ جہاں پہلے انتخابات میں ایسی سنگین بدنظمی دیکھی گئی جس کی مثال نہیں ملتی پھر جب یہی انتخابات دوبارہ کرائے گئے تو اس میں کسی قسم کی شکایت نہیں آئی۔ 

اب این اے249کے انتخابات کے نتیجے میں ایک دفعہ پھر الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ووٹر ٹرن آؤٹ کی شرح صرف 21 فیصد تھی اور اس کی ذمہ داری بھی الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے کہ کراچی کی سخت گرمی میں رمضان کے مہینے میں کورونا کے بیچوں بیچ ورکنگ ڈے پر یہ انتخابات کیوں کرائے گئے۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ تمام پارٹیز کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ملک میں الیکشن اصلاحات کے بغیر آگے کیسے بڑھا جا سکتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔