دنیا
Time 23 جون ، 2021

سمندری حدود کی خلاف ورزی پر روس کی برطانوی بحری جہاز پر فائرنگ اور بمباری

فوٹو: فائل

روس نے بحیرہِ اسود میں برطانوی بحری جنگی جہاز پر انتباہی فائرنگ  اور بمباری کرنےکا دعویٰ کیا ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق روس نے دعویٰ کیا ہےکہ اس نے بحیرہ احمر میں  برطانیہ کے ایک جنگی بحری جہاز ایچ ایم ایس ڈیفنڈر کو روسی پانی حدود کی خلاف ورزی پر  انتباہی فائرنگ سے خبردار کیا ہے۔

عام طور مغربی ممالک کے جہازوں کا روسی حدود کے قریب جانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں تاہم اس طرح کھلے عام فائرنگ کے واقعات شاذو نادر ہی ہوتے ہیں، اور یہ واقعہ بھی ایسے وقت پیش آیا ہے جب روس  کے امریکا ، برطانیہ اور نیٹو سے تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے۔

 روسی وزارتِ دفاع کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر برطانوی جہاز کو وارننگ دی گئی تھی کہ اگر روسی حدود کی خلاف ورزی ہوئی تو اسلحے کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے تاہم اس وارننگ کا کوئی اثر نہیں لیا گیا جس پر  سرحدی گشت پر مامور روسی بحری جہاز نے انتباہی فائرنگ کی اور  روسی جنگی جہازوں سخوئی 24 نے برطانوی جہاز کے قریب 4 بم بھی گرائے جس کے بعد بحری جہاز روسی حدود سے نکل گیا۔

تاہم دوسری جانب  روسی دعوے پر برطانوی وزارت دفاع نے اس قسم کے کسی بھی واقعے کی واضح طور پر تردید کی ہے۔

 برطانوی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ رائل نیوی کا بحری جہاز ایچ ایم ایس ڈیفنڈر  بین الاقوامی قانون کے مطابق یوکرین کی حدود سے گزر رہا تھا اور اس پرکوئی انتباہی فائرنگ نہیں کی گئی۔

ایچ ایم ایس ڈیفنڈر پر انتباہی فائرنگ کے اعلان کے بعد  ماسکو میں برطانوی دفاعی اتاشی کو روسی وزارتِ دفاع طلب کرلیا گیا۔

روسی وزارت دفاع کے مطابق  یہ واقعہ کریمیا کے علاقے کیپ فلینٹ کے ساحل کے قریب پیش آیا جسے روس نے 2014 میں یوکرین سے بزور طاقت حاصل کرلیا تھا اور اب اس کے سمندری حدود پر بھی دعویٰ کرتا ہے۔

جون کے اوائل میں برطانوی بحریہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ  ایچ ایم ایس ڈیفنڈر بحیرہ روم میں نیٹو کے آپریشن میں شریک بیڑے سے علیحدہ ہوکر  بحریہ اسود میں اپنے مشن پر  جارہا ہے۔

دوسری جانب روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے روسی سرحد کے قریب نیٹو کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ماسکو میں ایک بین الاقوامی سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیوٹن کا کہنا تھا کہ نیٹو اتحاد نے کشیدگی کو دور کرنے اور غیر متوقع خطرات کو کم کرنے کے لیے ہماری تعمیری تجاویز  پر غور کرنے سے انکار کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا روس کے منع کرنے کے باوجود یوکرین کی حمایت کے لیے خطے میں مسلسل اپنے جہاز بھیج رہا ہے۔

گذشتہ دنوں روس کی جانب سے اپنی سرحد اور کریمیا میں افواج کی تعیناتی سمیت بحیرہ اسود میں جنگی مشقوں کے بعد امریکا نے خبردار کیا تھا کہ وہ خطے میں 2 جنگی جہاز بھیجےگاتاہم روس کی جانب فوجوں کی واپسی کے بعد تناؤ میں کمی آگئی اور امریکا نے بھی جہاز نہیں بھیجے۔

اس سے قبل روس نے بحیرہ اسود کے کچھ حصوں کو بند کرنے کی دھمکی بھی دی تھی جس سے یوکرین کی بندرگاہوں تک جہازوں کی رسائی مشکل ہوسکتی تھی۔

2014 میں کریمیا پر قبضے کے بعد سے روس  بحیرہ اسود میں اس کی آبی حدود پر بھی دعویٰ کرتا ہے جس کے باعث یوکرین کے لیے مزید مشکلات کھڑی ہوگئی ہیں، 2018 میں اس علاقے میں شدید تناؤ اس وقت سامنے آیا جب روسی فوج نے جہاز کو قبضے میں لے کر 24 یوکرینی ملاحوں کو گرفتار کرلیا تھا جنہیں 2019 میں قیدیوں کے تبادلے میں رہا کردیا گیا۔

مزید خبریں :