بلاگ
Time 04 جولائی ، 2021

جنرل ضیاء الحق کا انٹرویو

قارئین۔ اسٹینڈ اپ، کھڑے ہو کر استقبال کیجئے۔ تشریف لاتے ہیں عالمِ بالا سے اس جہانِ فانی میں اعجاز الحق اور انوار الحق کے والدِ گرامی، عینی اور زین ضیا کے چہیتے ابو، شفیقہ بیگم کے شوہرِ باوفا، سابق صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق۔ میں انہیں آپ سب کی طرف سے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں۔

 ’’جنرل صاحب السلام علیکم‘‘۔ ’’وعلیکم السلام‘‘۔ ’’یہاں آتے ہوئے آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟‘‘۔ ’’آنے جانے میں تکلیف خواتین کو ہوا کرتی ہے‘‘۔ ’’جی، بیچاریوں کے پاؤں میں مہندی لگی ہوتی ہے مگر کچھ خواتین بےنظیر بھٹو اور مریم نواز جیسی بھی ہوتی ہیں‘‘۔ ’’مریم نواز بھی شاید وزیراعظم بننا چاہتی ہیں‘‘۔ ’’

جی اب وہی آپ کی سیاسی وارث ہیں‘‘۔ ’’(تھوڑے سے سخت لہجے میں اور سوالیہ نظروں سے) میری سیاسی وراث‘‘۔ ’’یہ تو آپ کو پہلے سوچنا چاہئے تھا‘‘۔ (غصے سے) ’’تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘۔ ’’آپ نے اپنا سیاسی جانشین نواز شریف کو بنایا تھا وہ ان کی بیٹی ہیں‘‘۔ ’’ہاں! میں نواز شریف کو نہیں پہچان سکا تھا‘‘۔ ’’اور عمران خان‘‘۔ ’’اُس سے تو بہتر آدمی ثابت ہوا ہے‘‘۔ ’’اُس کے لئے کوئی مشورہ؟‘‘۔ ’’یہی کہ عوام سے براہِ راست اپنے بارے میں رائے معلوم کرنے کی کوشش نہ کرے‘‘۔ ’’وہ کیوں‘‘۔ ’’ایک بار میں نے کوشش کی تھی، مہنگی پڑی تھی‘‘۔

 ’’کیا ہوا تھا؟‘‘۔ ’’ایک رات میں نے اپنے مالی کی سائیکل اور چادر لی، باہر نکلا تو پہلے ہی ناکے پر پولیس نے روک لیا کہ اتنے حساس علاقے میں کیا کرتے پھر رہے ہو۔ میں نے بڑا مسکین سا لہجہ بنا کر کہا کہ جنابِ عالی! کوئی غلطی ہو گئی ہے۔ سپاہی نے فوراً مجھے مرغا بننے کا حکم دیا۔ میں نے سزا سے بچنے کی کوشش کی تو اُس نے ڈنڈا دکھایا۔ مجبوراً کان پکڑ لئے‘‘۔ ’’آپ نے باقاعدہ کان پکڑ لئے؟(حیرت سے )‘‘۔ ’’ہاں ایک بار پکڑ لئے مگر احساس ہوا یہ تو بہت مشکل کام ہے۔ میں نے منہ سے چادر ہٹائی اور کھڑا ہو کر کہا او بےوقوف انسان! میں جنرل ضیاء الحق ہوں۔ 

سپاہی قہقہہ لگا کر بولا ’ایک ضیاء الحق کا پہلے عذاب کیا کم ہے کہ تم دوسرے ضیاء الحق آ گئے ہو، کان پکڑو‘۔ دوسرا سپاہی بولا ’تم ضیاء الحق کے بارے میں کوئی مزیدار لطیفہ سناؤ تو تمہیں چھوڑ دیں گے‘۔ میں نے اپنے بارے میں لطیفہ سنانا شروع کیا ہی تھا کہ پروٹو کول اور سکیورٹی کا عملہ پہنچ گیا۔ اس کے بعد میں نے اپنے بارے میں عوام سے براہِ راست رائے جاننے کی غلطی نہیں کی۔ اس لئے عمران خان کو مشورہ دیا ہے‘‘۔

 ’’آپ عمران خان کو ایک پاپولر لیڈر نہیں سمجھتے؟‘‘۔ ’’پاپولر لیڈر سے یاد آیا، جب میرے خلاف بہت لطیفے بنائے جانے لگے تو میں نے آفیسرز کی ڈیوٹی لگائی کہ لطیفے بنانے والوں کو تلاش کیا جائے۔ ایک بندہ میرے سامنے لایا گیا میں نے پوچھا ’تم میرے لطیفے بناتے ہو، کیا تمہیں علم نہیں میں اس ملک کا پاپولر لیڈر ہوں‘؟ کہنے لگا ’سوری سر! لطیفے تو میں بناتا ہوں مگر یہ لطیفہ جو آپ نے سنایا ہے میں نے نہیں بنایا‘۔ 

’’کسی نے لکھا ہے کہ فرانس میں آپ نے ایک بیرے کو فرانسیسی بحریہ کا ایڈمرل سمجھ لیا تھا؟‘‘ ’’(ہنستے ہوئے) کیا کرتا۔ سفید وردی میں ملبوس تھا۔ کندھے پر اسٹار اور سینے پر تمغے جگمگا رہے تھے۔ بحریہ والی پٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ سو میں نے جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھولا تو اُس کی سج دھج دیکھ کر اس سے بغل گیر ہونا پڑا۔ علیک سلیک ہوئی، خیر خیریت پوچھی، صوفے پر بٹھایا۔ فرانس اور پاکستان کے فوجی تعاون پر بات چیت شروع کی، تو کمبخت نے تب کہا کہ سر میں بیرہ ہوں‘‘۔ ’

’مورخین کہتے ہیں کہ آپ نے امریکہ کے لئے ایک طویل جنگ لڑی‘‘۔ ’’ہر گز نہیں، میں نے انہیں بےوقوف بنایا۔ پھر جب انہیں علم ہوا تو انہوں نے انتقام لیا، میرے ساتھ بارہ افراد اور بھی شہید کر دیے‘‘۔ ’’ان کا اپنا سفیر بھی جہاز میں سوار تھا‘‘۔ ’’(بھرپور قہقہہ) میں نے سوچا جاتے جاتے ایک آدھ کو میں بھی ساتھ لیتا جاؤں‘‘۔ ’’آپ بغیر دعوت کے میچ دیکھنے بھارت کیوں گئے تھے؟‘‘۔ ’’بھارت حملے کی تیاری کر چکا تھا‘‘۔

 ’’تو آپ حملہ روکنے گئے تھے؟‘‘۔ ’’ہاں۔ میں نے راجیو کے کان میں آہستہ سے کہا تھا کہ اب اگر جنگ ہوئی تو ایٹمی ہوگی، دنیا چنگیز اور ہلاکو بھول جائے گی، بےشک پاکستان میں بھی کوئی نہیں بچے گا مگر دنیا میں بہت مسلمان ہیں لیکن یہ طے ہے، دنیا میں ہندو کوئی نہیں رہے گا‘‘۔ ’’وہ کیا بولا؟‘‘۔ ’’وہ اُتنی دیر ماتھے سے پسینہ پونچھتا رہا جتنی دیر بارڈر سے بھارتی فوج چھاؤنی نہیں پہنچ گئی‘‘۔ ’’آپ نے شہید ہونے سے پہلے ملٹری ہائوس کے تقریباً 40درخت کٹوا دیے تھے کہ یہ سکیورٹی رسک ہیں‘‘۔ ’’ہاں۔ مجھے علم ہو چکا تھا کہ قاتل جلدی سے جلدی میری موت چاہتے ہیں‘‘۔

 ’’جلدی کس بات کی تھی‘‘۔ ’’افغانستان کے میجر گروپس کے لیڈرز کو میں فیڈریشن پر راضی کر چکا تھا۔ جیسی اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان ہے، ویسی فیڈریشن پاکستان اور افغانستان کے درمیان‘‘۔ ’’جنرل محمود درانی اور جنرل اسلم بیگ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘۔ ’’ No Comments‘‘۔ ’’آپ اپنے اور امریکہ کے تعلق کو کیسے ڈیفائن کرتے ہیں؟‘‘۔ ’’بل فائٹنگ دیکھی ہے نا، امریکہ وہی بل تھا اور میں فائیٹر۔ میں اُسے سرخ روسی کپڑا دکھا دکھا کر افغانستان گھیرتا رہا‘‘۔ 

’’مگر ہمیں اس کی بہت قیمت ادا کرنا پڑی‘‘۔ ’’بہت کم۔ امریکہ تو پاکستان کو میدان جنگ بنانا چاہتا تھا۔ یہ میری اور میرے بعد جنرل پرویز مشرف کی حکمت عملی تھی کہ جنگ پہاڑوں کے اُس طرف محدود رہی اور ہم نے ایسے پٹاخے بنا لئے جوصرف بھارت کو ہی نہیں پوری دنیا کو تباہ کر سکتے ہیں‘‘۔ ’’جنرل صاحب شکریہ‘‘۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔