بلاگ
Time 16 جولائی ، 2021

عثمان بزدار کی دستک

عثمان بزدارکی گورننس کا انداز مختلف بھی ہے اورانصاف کے قریب تربھی۔ وہ بیورو کریسی کو سمجھانے کےلئے ہر افسر کے دروازے پر 3 مرتبہ دستک دیتے ہیں۔ پہلی دستک محبت بھری ہوتی ہے، دوسری دستک کا انداز وارننگ جیسا ہوتا ہے اور پھر تیسری فیصلہ کن ہوتی ہے۔ وہ اپنا ناجائز رعب اور دبدبہ بنانے کیلئے کسی کی معطلی کا ناجائز آرڈر جاری نہیں کرتے۔ ماضی کی طرح صرف خبروں کی زینت بننے کیلئے کسی افسر کو بلاوجہ عہدے سے نہیں ہٹاتے۔

وزیراعلیٰ نے منصب پر فائز ہوتے ہی دستکیں دینے کا یہ عمل شروع کردیا تھا۔ اگرچہ ہر دستک کی آواز دور دور تک سنائی دی مگر شروع شروع میں میڈیا نے اِس اجنبی آوازکو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ ایک دستک انہوں نےاپنے دفتر کے دروازے پر دی، اسے عوام الناس کے لئے کھول دیا۔ 

اس عمل سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ بیوروکریسی کو بھی اپنے دروازے عوام کیلئے کھولنا پڑ گئے، یعنی افسروں تک عوام کی رسائی ممکن ہوئی، ورنہ نصف صدی ہونے کو ہے کہ بیوروکریسی بند دروازوں کے پیچھے بیٹھ کر عوام کے مستقبل کے فیصلے کرتی چلی آرہی تھی۔

 عوامی شکایات کے حل کیلئے کھلی کچہریوں کا آغاز کیا گیا اور پھر ڈیجیٹل گورننس کے ذریعے عوامی مسائل کے ازالہ کیلئے عوام کو حکومت سے ڈائریکٹ جوڑ دیا گیا۔ یہ بھی ایک دستک تھی جب رائٹ مین فار رائٹ جاب کے اصول کے تحت افسروں کے تبادلے کئے گئے، ہر محکمے میں اس کے آپریشنز اور افسر کی مہارتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سربراہان تعینات کئے گئے۔ نظام میں بہتری نظر آئی، پچھلے 10 برسوں میں پنجاب نے پہلی مرتبہ 97 فیصد ترقیاتی بجٹ استعمال کیا، عوام کیلئے مختص کئے گئے فنڈز عوام پر خرچ ہوئے، یہ دستک بھی بہترین ثابت ہوئی۔

اب آتے ہیں تازہ ترین دستک کی طرف۔ یہ موقع کی مناسبت سے بالکل درست اور اہم دستک ہے جو دراصل براہ راست افسرِ شاہی کو جھنجھوڑنے کیلئے دی گئی ہے۔ سردار صاحب نے خود کو رول ماڈل بنا کر پیش کیا، جس افسر میں بہتری کی گنجائش تھی اور نیت ٹھیک تھی اس نے خود کو بدلا، اسی طرح تقرری و تبادلوں کی حکمتِ عملی سے نظام میں بہتری کی کوشش بھی مفید ثابت ہوئی مگر اس سب کے باوجود ایسے افسران جو کام کو اپنا فرض نہیں سمجھتے، عوام کو سہولت پہنچانے کیلئے کوئی کوشش نہیں کرتے، ایسے لوگوں کے لئے یہ دستک فیصلہ کن تھی۔

ڈی جی خان کے دورے کے دوران وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے 6 افسروں کو معطل کردیا۔ عوامی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو مظفر گڑھ عمران شمس، تحصیل دار آفتاب اقبال کو عہدوں سے فارغ کردیا۔ اسی طرح عوامی شکایات کے پیش نظر ایم ایس ٹیچنگ اسپتال اطہر فاروق کو بھی عہدے سے ہٹایا گیا۔

 اس کے ساتھ ساتھ سپرنٹنڈنٹ سنٹرل جیل یاسر خان، ڈائریکٹر اینٹی کرپشن حافظ احمد طارق اور ایکسین ہائی وے گلفام اقبال کو بھی عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ سردار صاحب کی طرف سے یہ ٹریلر کہیں یا واضح پیغام کہ بیوروکریسی اپنا قبلہ درست کرلے، یہاں وہی رہے گا جو پرفارم کرے گا۔ 

جو عوامی مفاد کو اولین فریضہ نہیں سمجھتا، جو عوام کے مسائل کے حل کیلئے کوشش نہیں کرتا، جو خود کو افسر اور عوام کو رعایا سمجھتا ہے، ایسے سرکاری افسر کی پنجاب میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ محض 6 افسران کی معطلی نہیں تھی، بلکہ بیوروکریسی میں موجود ایسے لوگ جو نظام کو بدنام کرتے ہیں، یہ ان سب لوگوں کیلئے وارننگ ہے کہ وہ اپنی سمت درست کریں اور اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو ایسے شخص کیلئے پنجاب میں کوئی جگہ نہیں۔ بڑے دبنگ انداز میں سردار صاحب نے سب کو خبردار کردیا ہے۔ امید کرتا ہوں کہ اب ایسے افسران ہوش کے ناخن ضرور لیں گے۔

عثمان بزدارکے ڈی جی خان کے دورے میں اور بھی اہم منصوبہ جات سامنے آئے۔ انہوں نے بتایا کہ بہاولپور میں جلد ہی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا آغاز ہوجائے گا اور جنوبی پنجاب کے تمام محکموں کو مکمل طور پر فنکشنل کردیا جائے گا۔ اس وزٹ کے دوران تقریباً 3 ارب روپے کے منصوبوں کا سنگِ بنیاد اور افتتاح کیا گیا۔

 ڈی جی خان ٹیچنگ اسپتال میں 2 ارب روپے کی لاگت کےمدر اینڈ چائلڈ بلاک کا سنگِ بنیاد بھی رکھا گیا۔ دہائیوں سے پسماندگی کا شکار جنوبی پنجاب اور یہاں کے پسماندہ ترین ضلع ڈی جی خان میں پانی کی فراہمی کا منصوبہ لگایا جائے گا۔ اس کے علاوہ اندرونی سڑک، پناہ گاہوں اور دیگر منصوبوں کا بھی سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آسٹرو ٹرف ہاکی گرائونڈ، سٹی پارک ،جناح فیملی پارک اور بی ایم پی سرائے کی تعمیر نو کا افتتاح کیا گیا ہے۔

 جہاں عوامی منصوبوں کا آغاز ہوا، وہاں سردار صاحب نے اچانک جیل کا دورہ بھی کیا اور ٹی وی اور پنکھے ٹھیک کروانے کی ہدایات جاری کیں۔ سردار صاحب کی یہ وہ خصوصیات ہیں جو ان کو دیگر وزرائے اعلیٰ سے مختلف ثابت کرتی ہیں، وہ ووٹ کی بجائے عوام کی سہولت کیلئے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر باقی کے دو سال بھی یونہی کارکردگی دکھائی تو عوام تو خوش ہوںگے ہی اور جنرل الیکشنز میں ووٹ ملنا بھی آسان ہوگا۔

 ایک اور اہم بات جو پچھلے سال کی کامیاب حکمت عملی کا ثبوت ہے، جیسا کہ میں نے کالم کے آغاز میں ذکر کیا کہ پچھلے مالی سال میں پنجاب حکومت نے 97 فیصد فنڈز استعمال کئے، اگر اس کا بریک اپ دیکھا جائے تو سڑکوں، واٹر سپلائی اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے منصوبوں پر 100 فیصد بجٹ استعمال کیا گیا، شعبہ صحت میں 99 فیصد بجٹ استعمال ہوا جبکہ اربن ڈویلپمنٹ، انرجی، پبلک بلڈنگز اور ماحولیاتی شعبہ جات کیلئے 98 فیصد فنڈز استعمال ہوئے، ٹرانسپورٹ سیکٹر میں 96 فیصد، زراعت اور سوشل ویلفیئر میں 93 فیصد اور ایریگیشن میں 91 فیصد فنڈز استعمال کئے گئے۔

 اگر اسی رفتارکے ساتھ نئے آنے والے منصوبوں پر بھی توجہ دی گئی تو عوامی فلاح کیلئے مختص کی جانے والی رقم کے ثمرات سے جلد ہی عوام مستفید ہوسکیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔