انشورنس کمپنیوں کے فراڈ سے ذرا بچ کے…

یہ ایک بہت بڑی انشورنس کمپنی ہے، اِس کمپنی کی شاخیں ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہیں، اِس کی ویب سائٹ پر موجود دعوؤں کو پڑھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ کمپنی محض آپ کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے کام کر رہی ہے۔ اِس کے ایجنٹ جب لوگوں کے پاس بیمہ پالیسی لے کر جاتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ آپ اب محفوظ ہاتھوں میں ہیں، آپ نے اپنے بچوں کے لئے ایک بہترین فیصلہ کیا ہے، کسی بھی مصیبت یا آفت کی صورت میں آپ کو پشیمان ہونے کی ضرورت نہیں، ہم جانیں اور ہمارا کام، آ پ بس بیمے کی قسط بروقت ادا کرتے رہیں۔

اسی قسم کی لچھے دار باتوں سے متاثر ہو کر میرے ایک سیانے بیانے دوست نے بھی کمپنی کی پالیسی خرید لی، بیمہ ایجنٹ نے کمال مہربانی سے کام لیتے ہوئے میرے دوست کو تیس چالیس ہزار کی رعایت بھی دے دی کہ یہ پیسے وہ اپنے کمیشن میں سے چھوڑ رہا ہے۔ یوں ہمارے دوست کا اُس بیمہ ایجنٹ پر اعتماد مزید پختہ ہوگیا،اُس نے جیسے جیسے کہا ہمارے دوست نے بالکل ویسے ویسے بیمہ پالیسی پر دستخط کر دیے۔ 

ہمارا یہ دوست اچھا خاصا سمجھدار آدمی ہے اور بغیر پڑھے کسی کاغذ پر دستخط نہیں کرتا، اِن کاغذات کو بھی جب اُس نے پڑھا تو بیمہ ایجنٹ سے پوچھا کہ میاں تم اِس پالیسی کا جو ’ریٹرن ‘ بتا رہے ہو وہ تمہاری کمپنی کی گزشتہ پانچ برس کی کارکردگی سے میل نہیں کھاتا، یہ کیسے ممکن ہے کہ پچھلے سال تم نے چھ فیصدمنافع دیا اور اگلے پندرہ برسوں میں تم میری سرما یہ کاری دگنی کرکے مجھے لوٹاؤ گے؟ اِس پر بیمہ ایجنٹ نے بھرپور اعتماد کے ساتھ جواب دیا کہ سر آپ بے فکر رہیں، یہ محض کاغذی کارروائی ہوتی ہے، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن والوں نے ہمیں پابند کر رکھا ہے کہ ہم اِس طرح نمونے کی مثالیں اپنے کاغذات میں شامل کریں، ہم نے آپ کو جو تحفظ فراہم کرنا ہے وہ تو ہماری ذمہ داری، آخر گزشتہ دو دہائیوں سے یہ کمپنی یونہی تو لوگوں کے ’انشورنس کلیم ’ ادا نہیں کر رہی !بات میں دم تھا سو ہمارے دوست نے دستخط کر دیے۔

اگلے دو برس تک ہمارا دوست باقاعدگی سے بیمے کی قسطیں ادا کرتا رہا۔ دو سال بعد اسے خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنی پالیسی کی موجودہ مالیت دیکھے کہ دو برسوں میں اُس کے ادا کردہ دس لاکھ بڑھ کر کتنے ہو گئے! جب ضرورت سے زیادہ سیانے اُس دوست نے اپنے اکاؤنٹ سے لاگ اِن کرکے چیک کیا تو یہ دیکھ کر اُس کا ماتھا ٹھنکا کہ اُس کے دس لاکھ گھٹ کر ساڑھے 6 لاکھ رہ گئے ہیں۔

اِس بارے میں جب اُس نے کمپنی سے مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ پہلے تو کمپنی اُس کے ادا کردہ پریمیم میں سے ایک بڑی رقم براہِ راست اپنے کھاتوں میں لے جاچکی ہے اور یہ بات بیمہ پالیسی پر دستخط کرواتے وقت اسے نہیں بتائی گئی تھی۔ دوسرا انکشاف یہ ہوا کہ کمپنی نے اُس کے پیسے شیئر بازار میں لگائے تھے جن میں، بقول کمپنی کے، گھاٹا ہوگیا تھا لہٰذا یہ رقم 10لاکھ سے کم ہو کر ساڑھے 6 لاکھ رہ گئی ہے۔ میں اِس قصے کی مزید تفصیل سنا کر آپ کو بور نہیں کرنا چاہتا، مختصراً یہ کہ کمپنی کے اِس فراڈ اور دھوکہ دہی کے خلاف اُس نے گزشتہ ڈیڑھ سال سے انشورنس محتسب کے پاس شکایت درج کروا رکھی ہے جس کا اب تک فیصلہ نہیں ہو سکا کیونکہ بظاہر اِن طاقتوربیمہ کمپنیوں کے سامنے محتسب جیسا ادارہ بھی بے بس ہے۔

اِس قسم کے فراڈ کا دفاع کمپنی یہ کہہ کر کرتی ہے کہ کلائنٹ نے جن کاغذات پر سوچ سمجھ کر دستخط کیے تھے اُن میں لکھا تھا کہ اُس کا پیسہ شیئر وغیرہ کے کاروبار میں لگایا جا سکتا ہے جس میں نفع اور نقصان دونوں کا اندیشہ ہے۔ یہ دلیل بے حد بودی ہے کیونکہ بیمہ کمپنیوں کا تو دعویٰ ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کے مستقبل کی ضامن ہوں گی نہ کہ حصص جیسے کاروبار میں اندھا دھند سرمایہ کاری کرکے پیسے ڈبو دیں گے۔ آج بھی تمام بیمہ کمپنیوں کا یہی نصب العین ان کی ویب سائٹ پر درج ہے، کوئی بھی کمپنی یہ نصب العین نہیں لکھتی کہ وہ اسٹاک مارکیٹ میں سٹہ کھیل کر آپ کے مستقبل کو داؤ پر لگائے گی۔

بیمہ کمپنیوں کاطریقہ واردات یہ ہے کہ پہلے اِن کے ایجنٹ آپ کو مستقبل کے سہانے خواب دکھائیں گے اور بتائیں گے کہ کیسے کمپنی آپ کے سرمائے کو محفوظ بنا کر آپ کے بچوں کی شادیوں اور اُن کی تعلیم کا خرچہ اٹھائے گی اور ایک ’بچت پلان‘ کے تحت آپ کے بڑھاپے کا سہارا بنے گی۔ کمپنی نے اپنے اِن منصوبوں کو پر کشش نام دے رکھے ہیں جیسے ’Secure Life Plan‘ یا ’ Retire Smart Plus‘ یا ’Wed Smart Plus‘ وغیرہ، ان کے اشتہارات میں کسی ادھیڑ عمر شخص کی تصویر ہو تی ہے جو آبدیدہ ہوتے ہوئے بیٹی کو رخصت کر رہا ہوتا ہے یا کوئی نوجوان اپنی تعلیمی ڈگری ہاتھ میں لئے ماں کے قدموں میں بیٹھا ہوتا ہے۔

پاکستان میں چونکہ متوسط طبقے کے یہی مسائل ہیں سو یہ کمپنیاں لوگوں کو جذباتی انداز میں بلیک میل کرکے اِن سے روپے اینٹھتی ہیں۔ جن کاغذات پر کمپنی کے ایجنٹ دستخط کرواتے ہیں اُن کی عبارت بے حد طویل اور باریک حروف میں ہوتی ہے تاکہ آسانی سے پڑھی نہ جا سکے، اس عبارت میں وہ تمام باتیں لکھی ہوتی ہیں جو کمپنی کو مستقبل میں کسی ممکنہ قانونی چارہ جوئی سے بچا سکیں اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ 

کمپنی یہ بات واضح نہیں کرتی کہ وہ آپ کے پیسے اسٹاک مارکیٹ میں لگا دے گی اور سٹہ کھیل کر اطمینان سے کہہ دے گی کہ گھاٹا ہوگیا۔ کمپنی آپ کو یہ بھی نہیں بتاتی کہ اُس نے کس وقت کون سا شیئر خریدا اور کب اُس کی قیمت نیچے گئی اور کب اوپر آئی؟ یہ ایک ایسا ’Scam‘ہے جس میں عوام سے اربوں روپے لوٹے جا رہے ہیں اور حقیقت میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اِس دھوکہ دہی کی نہ صرف حکومتی سطح پر تحقیقات ہونی چاہئیں بلکہ فوری طور پر اِن نجی بیمہ کمپنیوں کا اجازت نامہ منسوخ کر دینا چاہئے جو متوسط طبقے کی جمع پونجی پر یوں سر عام ڈاکہ ڈال رہی ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔