بلاگ
Time 13 ستمبر ، 2021

افغانستان ۔ آتش فشاں کے دہانے پر

افغانستان سے عجلت میں امریکی افواج کی واپسی اور کابل پر غیرمتوقع طالبان کے قبضے نے پوری دنیا کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔ ہر طرف افواہوں کا بازار گرم ہے کہ یہ سب اچانک کیسے ہو گیا؟ کیا یہ کوئی نئی امریکی چال ہے یا اشرف غنی کی حکومت میں بغاوت کا شاخسانہ ہے؟ اب آگے کیا ہوگا؟ 

کیا طالبان مختلف لسانی، ثقافتی اور مذہبی فرقوں میں تقسیم افغانستان پر ایک مستحکم حکومت قائم کر سکیں گے جو اکیسویں صدی کے بین الاقوامی تقاضے پورے کرنے کی اہل ہو جس میں خواتین کے حقوق ، عوامی حاکمیت ، جدید سائنسی علوم اور اظہارِ رائے کی آزادی ہو، جہاں مذہب کے نام پر بے جا پابندیاں نہ لگائی جائیں کیونکہ یہ سب عوامل بین الاقوامی برادری خصوصاََ مغربی دنیا کے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی بنیادی وجوہات ہوں گی جن کی مالی اور سفارتی امداد پر آج تک کی ہر افغان حکومت کا تکیہ رہا ہے اور جن کی طرف سے اثاثے اور مالی امداد منجمد کر دینے سے افغانستان ایک ماہ کے اندر افراطِ زر، شدید مہنگائی اور بے روزگاری کا شکار ہو چکا ہے۔

اس وقت امریکی انخلا کے بعد بظاہر ون بیلٹ ون روڈ کے چینی منصوبے اور وسطی ایشیا تک اس کی رسائی کے لیے میدان صاف دکھائی دیتا ہے لیکن افغانستان میں برطانوی، وسطی ایشیا، سوویت یونین اور اب امریکی پسپائی کے بعد کیا چین افغانستان میں اس حد تک آگے جائے گا کہ اسے بھی لینے کے دینے پڑ جائیں کیونکہ افغانستان میں ایک اجتماعی یا وسیع البنیاد حکومت کے قیام کے بغیر جس میں تمام افغان دھڑوں کی نمائندگی اور رضا مندی شامل ہو‘ افغانستان میں استحکام نہیں آسکتااور افغان قوم جب تک کسی مضبوط نظام کے تحت متحد نہیں ہوتی، اس وقت تک ان کا واحد اتحاد ’’ غیر ملکی حملہ آوروں‘‘ کے خلاف جنگ کرنا ہے یا ان کے جانے کے بعد آپس میں جنگ کرنا یعنی ’’ خانہ جنگی‘‘ لہٰذا افغانستان میں دوست کو بھی ’’ جانی دشمن‘‘ بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔

 اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان کی ہے جس نے اپنی افغان دوستی کی قیمت 80ہزار جانوں کی قربانی ، 150ارب ڈالر کی اقتصادی تباہی اور 40لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھا کر ادا کی ہے جبکہ گزشتہ 20سال سے افغان عوام کی اکثریت پاکستان کو اپنا سب سے بڑا دشمن اور تمام مسائل کی بنیاد تصور کرتی ہے۔

 دوسری اہم بات یہ ہے کہ کیا چین اور افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک اقتصادی اور بین الاقوامی اثرو رسوخ کے حوالے سے اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ وہ باقی تمام طاقتور مغربی ممالک اور ان کے علاقائی حلیفوں کا مقابلہ کر سکیں ؟ پاکستان جو خود ہر طرح کے سیاسی ، اقتصادی اور قومی عدم استحکام کا شکار ہے، ایک نئی عالمی جنگ کا میدانِ جنگ تو بن سکتا ہے جس طرح وہ جنرل ضیاء سے لے کر مشرف کے دورمیں رہا جس کے باعث پاکستان اقتصادی ، سماجی اور سیاسی عدم استحکام سے شدید ترین متاثر ہوا۔ لہٰذا افغانستان میں مزید کوئی پاکستانی مہم جوئی ہمارے قومی وجود کے لیے بذاتِ خود ایک بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔

پاکستان میں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے والی طاقتیں ایک مدّت سے یہی کھیل ، کھیل رہی ہیں۔ اسی کھیل میں مشرقی پاکستان ہاتھ سے گیا ۔ لہٰذا اس تاثر کو عملی طور پر رد کرنا بہت ضروری ہے کہ پاکستان کا افغانستان میں اب بھی کوئی’’ فیورٹ‘‘ ہے جس سے افغانستان میں پاکستان دشمنوں کو ہر زہ سرائی کرنے کے مواقع مل جاتے ہیں۔ 

مندرجہ بالا تمام خدشات اور افواہوں سے قطع نظر یہ بات طے ہے اوروزیرِ دفاع برطانیہ کے مطابق، امریکی انخلا جس بھونڈے طریقے سے ہوا ہے اس نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ اب پہلے کی طرح واحد سپر پاور نہیں رہا۔ لہٰذا دنیا کا نیا نقشہ ترتیب دیا جانے والاہے جس میں بلا شبہ چین کاکردار سب سے اہم اور کئی چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے جو اسے سپر پاور بنا بھی سکتے ہیں اور موجودہ پوزیشن سے نیچے گرِا بھی سکتے ہیں۔

خطے میں بھارت امریکی مفادات کا سب سے بڑا محافظ بن چکا ہے جس کے ایران کیساتھ بھی گہرے مراسم ہیں۔ افغانستان کو اس وقت بیرونی سے زیادہ اندرونی چیلنجز درپیش ہیں اور افغان دھڑوں کی نسبت طالبان کے اندرونی اور نظریاتی اختلافات زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں جن میں شدّت پسند اور اعتدال پسند مذہبی رہنمائوں کی چپقلش بھی اہم ہے جس کا پہلا مظاہرہ حال ہی میں بننے والی افغان عبوری کابینہ ہے جس میں اعتدال پسند ملا برادر کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ 

طالبان کے علاوہ کسی دھڑے کو نمائندگی نہیں دی گئی۔ عورتوں کی کرکٹ ٹیم پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ طالبان، جو تجربے ، علم اور سیاسی بصیرت کے حوالے سے ابھی اتنے میچور نہیں۔ وہ آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھے ہوئے افغانستان کو کیسے استحکام دے سکیں گے؟ایسا ہونا بظاہر تو ناممکنات میں سے ہے ۔ لہٰذا تالیاں بجانے والے صبر کریں کہ افغانستان میں جشنِ طرب کو کہرام میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔