بلاگ
Time 21 ستمبر ، 2021

کٹے ہوئے سر کی کتھا

آنے والے برسوں میں لگنے والے ٹھڈوں اور ٹھوکروں سے قطعی بے فکر مینڈک کالونی کے ننگ دھڑنگ بچے بھاری بھرکم فٹ بال کو ٹھڈے مار رہے تھے۔ فٹ بال بھاری بھر کم اس لئے تھا کہ پھٹے پرانے فٹ بال میں بچوں نے طرح طرح کی الٹی سیدھی چیزیں ڈال کر گول مول بنانے کی سعی کی تھی۔ 

اطراف میں جابجا کچرے کے انبار پڑے ہوئے تھے۔ میدان کے ایک طرف مخدوش قبریں تھیں۔ کچھ افغانی بچے کوڑے کرکٹ سے اپنے مقصد کی چیزیں تلاش کر رہے تھے اور بے انتہا غلیظ بوریوں اور بڑے بڑے شاپر میں ڈالتے جا رہے تھے اور کھل کھلا کر ہنس رہے تھے۔

اچانک بہت بڑے بم پھٹنے کی آواز ماحول میں گونج اٹھی، جس نے مینڈک کالونی کے علاوہ، مچھر کالونی، جھینگر کالونی، کاکروچ کالونی اور دیگر بستیوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ مینڈک کالونی ،مچھر کالونی کے جنوب مشرق میں بھینس کالونی سے چند گز کے فاصلہ پر بکرا کالونی کے پشت پر آباد ہے۔ مچھر کالونی کا نام مچھر کالونی اس لئے پڑ گیا تھا کیوں کہ وہاں مچھروں کی بہتات تھی بلکہ اب تک ہے۔ 

کسی حکومت نے مچھر کالونی میں مچھروں کی پیدائش اور افزائش روکنے کے لئے کوشش نہیں کی تھی۔ اس بے حسی کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس کام کے لئے امریکہ سے امداد نہیں آتی تھی۔ اب تو یہ حال ہے کہ سورج غروب ہونےکے بعد آسمان سے مچھروں کے غلاف کے غلاف اتر آتے ہیں اور پوری کالونی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ 

سردیوں کے موسم میں جن لوگوں کے پاس لحاف نہیں ہوتا، وہ مچھروں کا لحاف اوڑھ کر سو جاتے ہیں۔ اس لئے مچھر کالونی کا نام مچھر کالونی پڑ گیا ہے۔مچھر کالونی کا اپنا اصلی پرانا نام تھا۔ لاوارث کالونی ، جو شخص کراچی میں وارد ہوتا تھا وہ لامحالہ لاوارث کالونی کا رخ کرتا تھا۔

لاوارث کالونی چونکہ کاکروچ کالونی کے شمال مغرب میں واقع تھی اور بھینس کالونی سے زیادہ دور نہیں تھی۔ لاوارث کالونی کے سیانوں نے لاوارث کالونی کو کاکروچ کالونی اور بھینس کالونی سے ملتا جلتا نام دینے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس کام کے لئے گول میز کانفرنس بلائی گئی۔ کانفرنس کے لئے گول میز مل نہ سکی لہٰذا گول میز کے مدعوئین نے چوکور میز پر اکتفا کر لیا۔

 لاوارث کالونی کے لئے کئی نام زیر غور آئے۔ مثلاً مکھی کالونی ، چیونٹی کالونی وغیرہ۔ کسی سیانے نے تجویز دی کہ کیوں نہ ہم اپنی کالونی کا نیانام وزیر اعظم یا صدر مملکت کے نام سے منسوب کریں۔ کئی مندو بین نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم اور صدر آنی جانی اور فانی چیزیں ہیں۔ مچھر ، کاکروچ،چونٹیاں وغیرہ ہمیشہ رہتی ہیں۔ ہم اپنی کالونی کو لافانی نام دیں گے۔

 اس بات نے گرما گرم بحث چھیڑ دی۔ کیا فانی ہے اور کیا فانی نہیں ہے؟ کون فانی ہے اور کون فانی نہیں ہے؟ شور بڑھتا گیا۔ ہلڑ ہنگامہ میں نمایاں آواز مینڈکوں کی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مینڈکوں کے ٹرانے کی آواز سب آوازوں پر بھاری پڑ گئی۔ اور پھر متفقہ فیصلہ سامنے آیا کہ آج سے لاوارث کالونی کو تاریخ کے پنوں میں مینڈک کالونی لکھا اور پڑھا جائے گا۔ اس نوعیت کی لاتعداد کالونیوں نے کراچی کے گرد گھیرا ڈال دیا ہے۔ کالونیوں میں رہنے والوں نے اپنے اپنے کونسلر منتخب کر لیے ہیں۔ بھینس کالونی کا کونسلر بھینس جیسا ہے۔

 کنواری کالونی کا کونسلر کنوارا ہے مینڈک کالونی کا کونسلر مینڈک سےمشابہ ہےاورکلفٹن میں ایک نجی تالاب میں رہتا ہے۔ تمام کالونیاں ایک دوسرےکے قریب ہیں۔ کسی وجہ سے اگر قانون نافذ کرنےوالے ایک کالونی پر دھاوا بول دیں تو قرب و جوار کی کالونیوں کے لوگ ان کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر دور دراز کی کالونیوں کے جاں فروش بھی ان کی مدد کو پہنچ جاتےہیں۔ اگر کبھی غیرت کے نام پر ایک دوسرے سے الجھ پڑیں تو بیچ بچاؤ کے لئے کسی ادارے کو اپنے قریب آنے نہیں دیتے۔ 

قتل و غارتگری کے بعد جرگے میں جزا اور سزا کے فیصلے سنائے جاتےہیں۔ یہ اس روز کی کتھا ہے جب مینڈک کالونی میں زور دار بم دھماکہ ہوا تھا۔ اس وقت مینڈک کالونی کے بچے خانہ خراب میدان میں بھس بھرے ہوئے فٹ بال کو ٹھڈے مار رہے تھے۔ دھماکہ کی آواز سن کر بچے کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر گندے گراؤنڈ پر الٹے لیٹ گئے تھے۔ کچھ دیر تک ان کو زمین کانپتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔

 تب اچانک خون میں لت پت کٹاہوا سر بہت اونچائی سے ان کے قریب آکر گرا۔ کٹا ہوا سر دیکھ کر بچے ڈر گئے۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے کٹے ہوئے سر کی طرف دیکھنےلگے۔ کٹے ہوئے سر کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ لگتا تھا جیسے وہ بچوں کو گھور رہا تھا۔ بچے ڈر کے مارے دبک کر گندے اور غلیظ گراؤنڈ پر پڑے رہے۔ ایک بہت چھوٹے بچے نے تھر تھر کانپتے ہوئے کہا ’’مجھے اس کی کھلی آنکھوں سے ڈر لگ رہا ہے‘‘۔

’’تو گھبرا مت ٹڈے‘‘ ایک بڑے بچے نے کہا ’’میں اس کی آنکھیں بند کر دیتا ہوں‘‘۔

بڑا بچہ کہنیوں کے بل سرکتا ہوا، کٹے ہوئے سر کے قریب پہنچا۔ اس نے کٹے ہوئے سر کی کھلی ہوئی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ کٹے ہوئے سر کی کھلی ہوئی آنکھیں بند ہو گئیں۔ تب گرجدار اور رعب دار آواز گونجی۔ ’’خبر دار ۔ ہاتھ مت لگانا‘‘۔

بچے ڈر کر دور ہٹ گئے۔ اہلکاروں کی نفری دوڑتے ہوئے آئی اور کٹے ہوئے سر کے گرد گھیرا ڈال دیا۔ دو نڈر کمانڈو آہستہ آستہ کٹے ہوئے سر کی طرف بڑھنے لگے۔ قریب پہنچ کر انہوں نے پوزیشن سنبھال لی۔ طرح طرح کے آلات سے کٹے ہوئے سر کا جائزہ لینے کے بعد انہوں نے فون پر بڑے افسر پھنے خان کو اطلاع دیتےہوئے کہا۔ ’’سر ، ہم نے خود کش حملہ آور کے کٹے ہوئے سر میں لگا ہوا طاقتور بم ناکارہ بنا دیا ہے‘‘۔

دوسرے روز پھنے خان نے پریس کانفرنس میں کہا۔ ’’خود کش بمبار کے سر میں لگا ہوا بم اگر چل جاتا تو کراچی میں کہرام مچا دیتا۔ کٹے ہوئے سر سے مزید پوچھ گچھ جاری ہے۔ اہم انکشافات سامنے آنے کی امید ہے۔‘‘


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔