پیری مریدی کے سیاسی کرشمے

میں نے اپنے پوتے افنان سے کہا کہ کار نکالو، ایک دوست کی طرف عیادت کے لئے جانا ہے۔ اُس نے کہا گاڑی کا بیلنس خراب ہے، چلتے چلتے بےقابو ہو سکتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا، مگر میرے اندر سوالات کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ میں سوچنے لگا کہ ریاستِ پاکستان جس میں 22کروڑ انسان آباد ہیں، اِس کی مشینری کا بیلنس تو ایک مدت سے خراب چلا آ رہا ہے اور اب تو اِس کے کل پرزے بھی ڈھیلے ہوتے جا رہے ہیں۔

ہمارے قابلِ احترام دوست اور پاکستان کے بااصول ماہرِ قانون حامد خان سے ملاقات ہوئی، تو اُنہوں نے دکھ بھری آواز میں ریاستِ پاکستان کی مشینری کی تباہ حالی کا ایک ایسا دردناک مرثیہ پڑھا کہ اُس وقت جتنے لوگ موجود تھے، اُن کے دل دھک دھک کرنے لگے تھے۔

ایک زمانے میں یہ خاکسار اِس حُسنِ ظن میں مبتلا تھا کہ کوئی شہری اپنے وطن سے غداری کا مرتکب نہیں ہو سکتا اور کوئی حکومت جان بوجھ کر عوام پر ظلم ڈھاتی ہے نہ دستور سے کھلواڑ کر سکتی ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے روح فرسا تجربات سے ہر شخص آزادی کی قدروقیمت اور وطن کی عظمت سے واقف ہو چکا ہے، اِس لئے وہ اِس کے خلاف سازشیں کیسے کر سکتا ہے اور حکومت اُس شاخ کی حفاظت سے کیونکر غفلت برت سکتی ہے جس پہ اُس کا آشیانہ آباد ہے؟ 

یہ حُسنِ ظن بتدریج کافور ہوتا گیا جب ہم نے حکمرانوں کے لارے لپوں میں مشرقی بازو کو علیحدہ ہوتے دیکھا۔ اب گزشتہ چند برسوں سے ایسے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ عقل سر پِیٹ رہی ہے اور اوسان خطا ہوئے جا رہے ہیں۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے موجودہ حکمران جو اپنے آپ کو ہر کام کے اعلیٰ ترین ماہر سمجھتے ہیں، پوری نیک نیتی سے نیا پاکستان تعمیر کرنے کے لئے بڑی جلدبازی میں تیزتیز قدم اُٹھا رہے ہیں، مگر وہ وطن کی سالمیت اور وقار کو شدید ضعف پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔ دراصل وہ خواہشات کے گھوڑوں پر سوار ہیں اور حال یہ ہے کہ ’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں‘‘۔ جناب عمران خان کو یہ زعم ہے کہ وہ 2023کے انتخابات میں بھی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر پاکستان کے عوام کی تقدیر بدل ڈالیں گے۔

اُن کے اِس زعم اور یقین میں چند چیزیں لازمی اجزا کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ پہلی یہ کہ آنے والے عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کا استعمال، دوسری، اوورسیز پاکستانیوں کے لئے انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا حق، تیسری، میڈیا کی زبان بندی کا بندوبست اور چوتھی دیانت دار جج صاحبان کے لئے آزمائشوں کا حصار۔ اِن لامحدود خواہشات کی راہ میں پاکستان الیکشن کمیشن سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔ اُس کی طرف سے ایک تفصیلی رپورٹ میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ای وی ایم کے ذریعے شفاف انتخابات کا انعقاد محال ہے اور بیرونِ ملک سے انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا عمل بھی محفوظ نہیں۔

اِس رپورٹ کے منظرِ عام پر آتے ہی ہمارے وزیر ریلوے جن کا انتخابی عمل سے دور کا بھی تعلق نہیں، طیش میں آ گئے اور اِلیکشن کمیشن کو آگ لگانے کی خواہش کا اظہار فرما دیا۔ بدقسمتی سے تحریکِ انصاف کے کچھ رہنماؤں کا یہی مائنڈسیٹ ہے کہ اُس کے ارادوں میں حائل ہونے والے ہر ادارے کا گلا گھونٹ دیا جائے۔

اِسی مائنڈ سیٹ کے ساتھ عدلیہ کو مختلف طریقوں سے دباؤ میں رکھا جا رہا ہے۔ میڈیا کی زبان بندی کے لئے پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کا شکنجہ تیار ہے جس کے خلاف صحافتی برادری کے علاوہ سول سوسائٹی کے طاقت ور حلقے میدان میں اُتر آئے ہیں۔ ایک شدید بحران کی کیفیت محسوس ہو رہی ہے۔

ایسے میں صدرِ مملکت جناب عارف علوی نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم کے بارے میں ایسے جملے ادا کیے جو خوشامد کی ذیل میں آتے ہیں اور اُن کے منصب کے سخت منافی ہیں۔ اُنہوں نے عالمی قائدین سے اپیل کی ہے کہ عمران خان کے وژن کو اپناتے ہوئے اُن کی مریدی اختیار کر لی جائے۔

 اِن دنوں حکومت کا زیادہ تر کاروبار پیری مریدی پر ہی چل رہا ہے۔ وزارتِ خارجہ کے بھیدی جناب حفیظ جاوید نے ہمیں اطلاع دی ہے کہ ہمارے دانش ور وزیرِ خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک مرید کو اپنا خصوصی مشیر مقرر کیا ہے اور سیکرٹری خارجہ کے جملہ اختیارات اُسے سونپ دیے ہیں۔ 

اب جب ہمارے وزیرِ خارجہ دفتر میں تشریف لاتے ہیں، تو اُن کا استقبال ایک پیر کے طور پر کیا جاتا ہے۔ یہی عالم وزیرِاعظم کے دفتر کا ہے جہاں قدم قدم پہ قصیدہ آرائی ہوتی ہے۔ قصیدوں کی جلو میں مغلیہ خاندان نے سلطنت گنوا دِی تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اُس برے انجام سے محفوظ رکھے اور پاکستان کو ایک مثالی ریاست بنانے کی توفیق عطا فرمائے!

ہماری حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے جس نے 90فی صد آبادی سے زندہ رہنے کی امنگ ہی چھین لی ہے۔ سب سے زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ وہ ادارے جن کو دستور نے ریاست کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی ہے، وہ بھی ریاستی مشینری کے کل پرزے اکھاڑ دینے والوں کا ہاتھ نہیں روک سکے۔ امریکہ افغانستان میں شکست کھانے کے بعد پاکستان پر اُس کا ملبہ ڈالنے پر تُلا ہوا ہے اور چین کے گرد گھیرا تنگ کیے جا رہا ہے۔ 

ہمارا پورا اِنحصار چین پر ہے جس نے ایک ہی حملے میں بھارت کی ہوا نکال دی ہے۔ اب وہی چین سی پیک کے حوالے سے ہم سے ناراض دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے اربابِ اختیار کچھ دوسرے ہی مشاغل میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی رِٹ ضرور قائم رکھے گا اور حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ بامعنی مذاکرات کرنا پڑیں گے۔ پیری مریدی کے مصنوعی کرشمے اپنی کشش کھوتے جا رہے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔