غریب غرباء کیلئے مفت مشورے!

اِس موضوع پر میرا یہ پندرھواں کالم ہے یہی وجہ ہے کہ اب مجھے نزلہ، زکام، کھانسی کے بارے میں بات کرنا کبھی اچھا نہیں لگتا کہ پڑھنے والے بھی تنگ آگئے ہوں گے اور ویسے بھی سننے والوں کو اس مرض میں مبتلا شخص سے رتی بھر ہمدردی نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تو روزمرہ کی چیز ہے۔ عمر بھر کا ساتھی ہے، اس کا شکوہ کرنا آدابِ محبت کے منافی ہے۔ 

دراصل جو خواتین و حضرات اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، انہوں نے اس بن بلائے مہمان کے بارے میں صرف سنا ہوتا ہے، اس کی میزبانی کا شرف انہیں حاصل نہیں ہوا ہوتا۔ یہ ایک چالاک بیماری ہے یعنی دیکھنے میں بھلی مانس لیکن دراصل آفت کی پڑیا ہوتی یا ہوتا ہے۔ نزلے زکام کا مریض آپ کو دیکھنے میں بھلا چنگا لگے گا۔ آپ کسی صاحب کے سامنے پانچ سات چھینکیں ماریں گے اور آپ سے پہلے وہ صاحب الحمدللہ کہیں گے اورآپ کو بتائیں گے کہ یہ نزلہ آپ کے لئے کس قدر ضروری تھا مگر یہ کورونا سے پہلے کی بات ہے۔

ایسے موقع پر میں ان کا شکریہ ادا کرنے کے لئے تین چار بار بلکہ بار بار آنے بہانے نزلے سے سرخ ہوتی اپنی ناک ان کی ناک کے برابر لا کر بات چیت کرتا ہوں۔ وہ حضرت میری اس والہانہ محبت پر خوش ہورہے ہوتے ہیں اور نہیں جانتے کہ جس بیماری کے وہ قصیدے پڑھ رہے ہیں، میں یہ نعمت ان کو بھی ’’دان‘‘ کرنے جارہا ہوں کہ مجھے علم ہے چھوت کی بیماری بہت جلد دوسروں سے بے تکلف ہو جاتی ہے۔ اس ’’وقوعہ‘‘ کے تین چار دن بعد ان سے ملاقات ہوتی ہے تو میں اس ’’چالاکو ماسی‘‘ کی تعریف کر رہا ہوتا ہوں اور وہ اپنی سرخ ناک کو مسل مسل کر مزید سرخ کررہے ہوتے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ کمینی بیماری زکام ہے، انسان نہ تو کھانس رہا ہوتا ہے اور نہ ناک صاف کررہا ہوتا ہے۔ اس کی زد میں آئے ہوئے شخص کا صرف دماغ بند ہوتا ہے۔ اس کے کان میں آوازیں پڑتی ہیں مگر بہت غور و خوض کے بعد پتہ چلتا ہے کہ دوسرا کیا کہہ رہا ہے۔ جب دماغ بند ہو جائے اور انسان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت باقی نہ رہے تو وہ دوسروں کے لئے تر نوالہ بن جاتا ہے۔ 1977,1958اور 12اکتوبر 1999میں ہماری مارشل لائی قیادت کو زکام نے جکڑا ہوا تھا ورنہ وہ ملک کو تباہی کے رستے پر کبھی گامزن نہ کرتی۔ یہ زکام جاتے جاتے ہی جاتا ہے، چنانچہ اس زوال کے آثار ابھی تک باقی ہیں!

باقی رہی کھانسی، تو یہ نزلے اور زکام سے قدرے مختلف ہے۔ یہ اگرچہ شور بہت مچاتی ہے مگر اندر سے یہ بھی چالاکو ماسی ہے۔ اس کی تکلیف کا اندازہ صرف اسی کو ہوتا ہے جسے یہ چمٹی ہوتی ہے، دوسروں کے لئے اس کی حیثیت صرف کھانسی کی ہے۔ وہ اس کا موازنہ کینسر ، ٹی بی، شوگر، فالج اور اس طرح کی دوسری ’’عالمی طاقتوں‘‘ سے کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ’’یار کیا واویلا کررہے ہو، ایک کھانسی ہی ہے نا! کوئی جان لیوا مرض تو نہیں!‘‘ چنانچہ وہ جوشاندہ پینے کا مشورہ دیں گے کہ ان کے نزدیک اس بیماری کی اوقات اس سے زیادہ نہیں بلکہ آپ ایک دفعہ کسی کے سامنے کھانس کر دیکھیں وہ فوراً حکیم اجمل خان کے روپ میں سامنے آجاتا ہے اور طبی مشورے دینے لگتا ہے۔

ویسے آپس کی بات ہے میرا اپنا معاملہ بھی کچھ اس قسم کا ہی ہے، میں بیماریوں کی بات نہیں کررہا۔ ان بے صبرے عوام کی بات کررہا ہوں، جو میرے سامنے اپنے چھوٹے چھوٹے دکھ بیان کرتے ہیں، مجھے ان کی باتیں سن کر دل میں ہنسی آرہی ہوتی ہے مگر میں خود پر ضبط کر کے پوری سنجیدگی سے ان کی باتیں سنتا ہوں، مثلاً یہ لوگ مجھے بتائیں گے کہ شدید گرمی کے موسم میں جب آدھی رات کو لائٹ چلی جاتی ہے اور پھر صبح تک نہیں آتی تو ان کا اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا حال ہوتا ہے، میں انہیں کہتا ہوں کہ تم لعنت بھیجو انگریزوں کی دریافت بجلی پر، اپنے کلچر سے محبت کا ثبوت دینے کے لئے دستی پنکھے استعمال کرو، بل بھی نہیں آئے گا، ہاتھوں کی ورزش بھی ہو جائے گی، کوئی کہتا ہے کہ اس کی تنخواہ صرف پندرہ ہزار ہے، اس میں مکان کا کرایہ بھی دینا ہے۔

بال بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہے، میں انہیں نہایت ہمدردانہ انداز میں سمجھاتے ہوئے بتاتا ہوں کہ تم کبھی دلی، بمبئی یا کلکتے جائو، وہاں لوگ قطار اندر قطار اپنی فیملی سمیت فٹ پاتھ پر رہ رہےہیں، فٹ پاتھ کی نعمت ہمارے ہاں بھی موجود ہےبلکہ بڑے خوبصورت پارک بھی ہیں، تمہارا بڑا خرچہ مکان کے کرائے کا ہے ایک کمرے میں زندگی بسر کرنے کی بجائے وسیع و عریض فٹ پاتھوں اور پارکوں میں عیش سے رہو، تمہیں زندگی گزارنے کا پہلی بار مزا آئے گا، کئی لوگ چیختے چلاتے میرے پاس آتے ہیں کہ ان کی ماں سخت بیمار ہے، ان کا بچہ موت کے دہانے پر ہے، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیسے مسلمان ہیں جو جانتے ہی نہیں زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، یہ جان بچانے کے لئے ڈاکٹر اور انگریزی دوائوں کی طرف بھاگتے ہیں۔

یہ اور اس طرح کے دیگر مسائل کی کوئی اہمیت نہیں، ہمارے لوگوں نے خواہ مخواہ انہیں مسئلہ بنایا ہوا ہے۔اصل مسئلہ نزلہ زکام اور کھانسی ہے جس کی زد میں میں خود آیا ہوں۔ باقی لوگ خواہ مخواہ واویلا کرتے رہتے ہیں!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔