بلاگ
Time 07 اکتوبر ، 2021

افغانستان اور اندھا پن

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

لگتا ہے، ہم ایک ایک کرکے اپنی بینائی کھو رہے ہیں۔ یہ ایک ہولناک وبا ہے، مگر اس کی کوئی ویکسین نہیں۔ خدشہ ہے کہ ایک دن پورا شہر اندھا ہوجائے گا۔

نوبیل انعام یافتہ پرتگالی ادیب، ہوزے سارا ماگو کے شہرہ آفاق ناول ’’اندھا پن‘‘ میں پیش کردہ یہ صورت حال کبھی کبھی اپنے معاشرے کاعکس معلوم ہوتی ہے۔ ایک معتدی اندھے پن نے ہمیں گھیر رکھا ہے، جس نے ہم سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی چھین لی ہے۔ اور اب اس مرض سے کوئی مفر نہیں۔

آج ملک پھر نازک دور سے گزر رہا ہے، اور بدقسمتی سے یہ عمل ستر سال سے جاری ہے۔ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا بحران۔ اور ان بحرانوں میں جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا، اسے ہم عوام کہتے ہیں۔ ستر سال سے دعوؤں وعدوں سے یہ بے چارے بہلائے جارہے ہیں۔ اور لگتا ہے، یہ افسوس ناک سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا۔

ہماری قسمت کے فیصلوں سازوں نے نہ تو ماضی میں ہمیں حقائق سے آگاہ کیا اور نہ ہی آج وہ اسے ضروری تصور کرتے ہیں۔ ان ستر برسوں میں نہ تو ہمارے ہاں جمہوریت مستحکم ہوسکی، نہ ہی معیشت۔ بار بار لگنے والے مارشل لا، اور ان کے جواز تراشنے کے بے انت سلسلوں کے باعث ہمارے ہاں اداس اور متذبذب نسلوں کا جنم ہوا۔

قوم تو ہم بن ہی نہیں سکے، گروہ بھی ایسا بنے، جو کنفوژڈ ہے۔ ایک فرد، دوسرے شخص کی فکر سے نہ صرف لاعلم،بلکہ اس سے دل ہی میں دل میں متنفر بھی ہے۔

ہم نے پہلے آدھا ملک گنوایا، ایک منتخب وزیر اعظم کو معزول کرکے پھانسی دی، پھر ایک ایسی جنگ میں جھونک دیے گئے، جس میں ہمارے حصے میں فقط انتہاپسندی، اسلحہ اور منشیات آئے۔ (چند کے حصے میں ڈالرز بھی آئے، مگر ان کا ذکر فی الحال رہنے دیتے ہیں)

پاکستان کے تناظر میں افغان جنگ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اور ہر بار اس نے ملک پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ 80کی دہائی میں لڑی جانے والی افغان جنگ میں نہ تو ہم فاتح تھے، نہ ہی مفتوح، مگر ہمیں اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا گیا کہ ہم نے سوویت یونین پر آخری ضرب لگائی اور کمیونزم کو شکست دی۔ اس مصنوعی جشن میں ہم بھول گئے کہ پڑوسی کے گھر سے اٹھتی چنگاری ہمارے گھروں تک بھی آسکتی ہے۔

نائن الیون کے بعد یہ خطہ ایک بار پھر آگ و خون میں جھونک دیا گیا، ایک بار پھر ہم الجھے ہوئے بیانیہ کے ساتھ اس کا حصہ بنے۔ اور اس بار شدید کرب اٹھایا۔ ساٹھ ہزار سے زاید افراد لقمہ اجل بنے۔

اور اب اس کا تیسرا فیز ہے۔ جوکچھ ہم نے ضیا دور میں دیکھا، کچھ ویسے ہی مناظر آج پھر دکھائی دے رہے ہیں۔ افغانستان میں غنی حکومت کے خاتمے اور طالبان کی آمد کو جس طرح ہم ریاستی طور پر گولوریفائی کر رہے ہیں، یہ اسی غیرواضح سوچ کا تسلسل ہے، جس نے ہمیں عشروں سے ہلکان کر رکھا ہے۔

افغانستان میں جو کچھ رونما ہوا،اس سے اختلاف اور اتفاق اپنی جگہ، مگر اس پورے معاملے کو پاکستانی ریاست جس طرح سلجھانے کی کوشش کر رہی ہے، اس میں فائدے کا امکان کم ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے افغانستان سے متعلق حالیہ بیانات کئی بار غیرضروری معلوم ہوتے ہیں۔ حقائق کی غلطی کے واقعات بھی رونما ہورہے ہیں۔ بین الاقوامی پلیٹ فورم پر ایسا ہونا کوئی خوش گوار تجربہ نہیں۔ اس موقعے پر تجربہ کار اور وسیع مطالعے کے حامل تقریر نویس اور نوٹس لینے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

چین سے قربت، کشمیر اور اب افغانستان؛ عالمی دنیا کو ناراض کرنے کا ہمارے پاس خاصا سامان ہے۔ اور ان کی ناراضی کا اندازہ جو بائیڈن کے طرز عمل اور امریکی سینیٹ میں پاکستان مخالف آوازوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ خطہ عرب سے بھی اب اس حمایت کی توقع نہیں، جس کا چرچا ہم برسوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ خارجہ محاذ پر ہمیں اپنی پالیسی میں تبدیلی اور ایک نئے لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم سے غلطیاں ہوئیں اور مستقبل میں انھیں دہرانا سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ ہمیں ایک ایسے سفارتی بیانیہ کی ضرورت ہے، جو روایتی سوچ، غلط فہمیوں اور کلیشے پر مبنی نہ ہو۔

یہ سچ ہے کہ تیزی سے بدلتی دنیا میں ہم تنہا نہیں رہ سکتے۔ اور یہ بھی کہ پاکستان اپنی پالیسیاں تو بدل سکتا ہے، اپنا جغرافیہ نہیں، مگریہ بھی حقیقت ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اپنی شبیہہ بہتر بنانے کے لیے ہمیں دیگر ممالک سے کچھ عرصے لاتعلق ہو کر کلی طور پر اپنے مسائل پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ خود کو معاشی اور فکری طور پر مضبوط کیے بغیر حقیقی ترقی فقط سراب ہے۔ اگر فوری فیصلہ نہیں کیے، تو فقط مایوسی ہاتھ آئے گی۔

ہوزے سارا ماگو کے ناول کے آخر میں ایک کردار کہتا ہے: ہم سب اندھے ہیں، آنکھوں والے اندھے، جو دیکھتے ہیں، مگر نہیں دیکھتے۔

حقائق کو دیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے کے لیے موجودہ صورت حال سے بہتر موقع پھر نہیں آئے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔