بلاگ
Time 08 اکتوبر ، 2021

اہم فیصلے اور ممکنہ نتائج

پاک فوج میں اہم عہدوں پر مختلف تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ ان میں کئی کورز کے کمانڈرز کی تبدیلیاں اور تعیناتیاں شامل ہیں۔ انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو تبدیل کر کے کور کمانڈر پشاور تعینات کیا گیا ہے۔یہ انتہائی اہم کور ہے۔ 

افغان صورتحال اور مغربی سرحد سے متصل سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام اور تمام صورتحال پر نظر رکھنے کی وجہ سے اس کور کی بہت اہمیت ہے۔

 لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی بطور کور کمانڈر پشاور تعیناتی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہایت باصلاحیت افسر ہیں اور ان معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں جو اس کور کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر بھی انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقہ سے نبھایا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو ڈی آئی جی ایس آئی تعینات کیا گیا ہے۔ ان کا شمار پاک فوج کے اعلیٰ ترین افسروں میں ہوتا ہے، ان کا فیلڈ کا تجربہ خاصا وسیع ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ ظرفی ان کا خاصہ ہے۔ مزاج میں نرمی لیکن پیشہ ورانہ معاملات پر بھرپور نظر رکھنے اور اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔

 ان کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی تعیناتی سے ظاہر ہوتا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی خوبیوں میں بہترین افسر کا انتخاب اور صلاحیتوں کے مطابق تعیناتی ایک اور اضافی خوبی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کی بطور آئی ایس آئی چیف تعیناتی سے پاکستان مخالف عناصر اور ممالک کو ضرور تکلیف پہنچی ہو گی۔

نئے تعینات کئے گئے ڈی جی آئی ایس آئی کا نقطہ نظر یقیناً یہی ہے کہ پاکستان کا دوست قابلِ قدر اور ان کا دوست ہے اور پاکستان کے دشمنوں کا وہ خطرناک اور ہمہ وقت چوکس دشمن ہے۔ پاک فوج بہترین ڈسپلن اور اعلیٰ اقدار کی حامل ہے اور یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں معروف اور اپنی مثال آپ ہے۔

 آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بے مثال قیادت نے پاک فوج کے اعلیٰ ترین مقام کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ ہمیں بجا طور پر اپنی فوج اور جنرل قمر جاوید باجوہ پر فخر ہے۔ حالات، واقعات اور خطے کی صورتحال میں اہم کردار اور ملکی دفاع کے لئے قربانیوں و اقدامات کو مدنظر رکھتے ہوئے برملا یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاک فوج، افسروں اور جنرل قمر جاوید باجوہ سے بغض رکھنے والے پاکستان اور ملکی دفاع کے ساتھ قطعی مخلص نہیں ہیں۔

وفاقی حکومت نے گزشتہ روز نیب کے حوالے سے بعض اہم فیصلے کئے ہیں۔ جن میں چیئرمین نیب کی تعیناتی، توسیع اور نیب قوانین میں بعض ترامیم شامل ہیں۔ حکومت کی یہ عجیب منطق ہے کہ بہت سا وقت ضائع کرنے کے بعد اچانک یہ فیصلے اور ترامیم کی گئیں اور ان کے لئے حسبِ سابق آرڈی نینس کا سہارا لیا گیا۔ یہ ایک سوال ہے کہ حکومت موجودہ چیئرمین کو ہی برقرار رکھنے پر کیوں بضد ہے؟

موجودہ چیئرمین کی تعیناتی جب اس وقت کی حکومت اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کی گئی تھی جس کی موجودہ حکومت مثال بھی پیش کرتی رہی کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی بطور چیئرمین نیب تعیناتی ہم نے نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ہی کی تھی تو اب ان کو شکایت اور اعتراض نہیں کرنا چاہئے اور اس معاملے میں اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کر کے چیئرمین کی تعیناتی اور قومی اسمبلی و سینٹ کی اکثریتی رائے سے نیب قوانین میں متفقہ طور پر تبدیلی کی جائےتو اس میں کیا امر مانع ہے؟ 

حکومت کو سوچنا چاہئے کہ جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی باہمی مشاورت سے جس شخصیت کو چیئرمین نیب تعینات کیا گیا تھا اور اب تک یہ دونوں جماعتیں ان ہی چیئرمین سے شاکی اور نالاں ہیں تو آج اگر موجودہ حکومت ایک نئی اینٹ لگا کر پوری بنیاد ہی کو ہلا دے گی اور خود ہی موجودہ چیئرمین نیب کو توسیع دیتی ہے یا بعدمیں ’’شاید ‘‘اپوزیشن لیڈر سے برائے نام مشاورت کر کے اپنی ہی مرضی سے موجودہ یا کسی اور کو نیب کا چیئرمین تعینات کر دےگی تو اپوزیشن کے نعرے ’’نیب نیازی گٹھ جوڑ‘‘ کو تقویت ملے گی بلکہ وہ کھل کر متنازعہ بنے رہیں گے۔ 

اس طرح کے اقدام کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اگر اپوزیشن جیسا کہ عندیہ بھی دیا گیا ہے، اس توسیع اور تعیناتی کو آئینی ضوابط کی خلاف ورزی کی بنیاد پر عدالت میں چیلنج کر دے تو ممکن ہے کہ حکومت کی ایسی تمام کوششیں ناکام اور غیر موثر ہو جائیں تو پھر حکومتی ساکھ کا کیا بنے گا؟

اس کا ایک اور اہم تیسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کل جب پی ٹی آئی کی حکومت نہیں رہے گی اور ان کی ہی مرضی سے تعینات ہونے والا چیئرمین نیب (وہ موجودہ ہو یا کوئی اور) پی ٹی آئی والوں کی فائلیں کھولیں گے تو پھر یہ لوگ کس کو دوش دیں گے۔ اور یہ صورتحال پی ٹی آئی کے لئے مزید نقصان دہ ہو جائے گی۔

 اس لئے حکومت اب ضد ترک کردے اور ان معاملات کو آپس میں بیٹھ کر افہام و تفہیم سے طے کرے۔حکومت کا یہ موقف بھی عجیب ہے کہ اپوزیشن لیڈر پر چونکہ الزامات ہیں اس لئے ان سے مشاورت نہیں ہونی چاہئے تو شہباز شریف ملزم ہیں مجرم نہیں۔

 دوسری بات یہ ہے کہ پنڈورا پیپرز میں پی ٹی آئی کے جن وزیروں، مشیروں اور قریبی افراد کے نام ہیں۔ گندم اور چینی اسکینڈلز وغیرہ میں جن پر الزامات ہیں تو ان کو بھی حکومت سے الگ کر دیا جائے کیوں کہ وہ کس طرح حکومتی مشاورت اور فیصلوں میں شامل ہو سکتے ہیں؟ اس طرح یک طرفہ ٹریفک تو چلتی ہے مگر حکومت نہیں چل سکتی۔ اس طرح کے مشورے دینے والوں کو بھی ایسے فیصلوں کی غیر مقبولیت اور سیاسی نقصانات کو مدنظر رکھنا چاہئے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔