تصاویر - کابل کے تفریحی پارک میں چھُٹی کا دن مناتے طالبان جنگجو

جنگجو چائے پیتے، ساحل کے کنارے لگے اسٹالوں سے چٹ پٹی چیزیں خریدتے یا کچھ تفریحی پارک میں لگے جھولوں کا مزہ لیتے رہے۔

کابل: ہاتھوں میں مشین گنوں کے ساتھ ٹہلتے ہوئے، حلیمی اور اس کے سیکڑوں ساتھی طالبان جنگجوؤں نے کابل کے قریب ایک جھیل کنارے تفریحی پارک میں ایک غیر معمولی چھٹی کے دن کا لطف اٹھایا۔

یہ دارالحکومت کے  قریب قرغہ جھیل کے ریتیلے ساحلوں پر جمعہ کا دن ان طالبان جنگجوؤں کے لیے مہینوں کی کشمکش اور ہفتوں کی سکیورٹی ڈیوٹی کے بعد ایک خوش آئند وقفہ تھا۔

وسطی میدان وردک صوبے سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ حلیمی نے اپنا پورا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے خبر ایجنسی رائٹرز کو بتایا ،’میں کابل آنے اور پہلی بار قرغہ جھیل دیکھنے پر بہت خوش ہوں۔‘

پارک میں بھاری ہتھیاروں سے لیس یہ جنگجو چائے پیتے اور ساحل کے کنارے لگے اسٹالوں سے چٹ پٹی چیزیں خریدتے دکھائی دیے۔

کچھ تفریحی پارک میں لگے جھولوں کا مزہ لینے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔

— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو

حلیمی کے پیچھے، میدان وردک سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ ضیاالحق کو گھوڑے کی سواری کے لیے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔

ان میں سے زیادہ تر جنگجو وہ تھے جنہوں نے 15 اگست کو طالبان کے دارلحکومت کا کنٹرول سنبھالنے سے قبل کبھی کابل نہیں دیکھا تھا جب کہ ان میں سے کچھ ملک میں اپنے فرائض پر واپس پہنچنے سے پہلے تفریحی پارک کا دورہ کرنے کے لیے بے چین تھے۔

حلیمی نے مزید کہا کہ، ’ہمیں لڑنے پر فخر ہے اور اب وہ (امریکی) چلے گئے ، یہ سب سے زیادہ خوشی کی بات ہے جو ہم نے ابھی تک محسوس کی ہے۔"

— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو

واضح رہے کہ صدر اشرف غنی کے افغانستان سے بھاگنے کے بعد اگست میں اقتدار میں آنے سے پہلے طالبان نے مغربی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف 20 سالہ جنگ لڑی۔

اس لیے خبر ایجنسی کے مطابق طالبان کے زیادہ ترجنگجو بہت کم اس طرح کی تفریحی سرگرمیوں سے واقف ہیں۔

— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو

جنگجوؤں کو اب ملک گیر سلامتی کو یقینی بنانے کا کام سونپا گیا ہے جب کہ گزشتہ ہفتے کے دوران مذہبی مقامات پر کم از کم تین حملے ہوئے ہیں جن کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔

طالبان نے داعش کے خلاف کئی کارروائیاں بھی کی ہیں۔