محسنِ پاکستان، مددِ خدا

محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان فانی دنیا سے رخصت ہوکر بارگاہِ رب العزت میں حاضر ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پیچھے چھوڑی بنی اور بنتی جدید عالمی تاریخ میں امر ہو گئے۔ 

وہ بھاری بھر کم وسائل کی حامل زوال پذیر مسلم دنیا کے ہر وقت سیاسی و اقتصادی بحران کی کیفیت میں مبتلا ڈگمگاتے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا گئے، کیسی اور کتنی منفرد تاریخ سازی ہے یہ، جسے ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنے حاصل علم کے کمال اطلاق سے ممکن بنا دیا۔

 پوری اسلامی تاریخ میں یہ نصیب محسن پاکستان ہی کا بنا۔ اپنے واضح نظر آتے آسودہ مستقبل کی راہ ترک کرکے وہ 1976میں ہالینڈ سے خستہ حال پاکستان کو مضبوط بنانے چلے آئے۔ ذوالفقار علی بھٹو سیاست دان بعد میں پہلے پولیٹکل سائنٹسٹ تھے، عوامی رجحانات کو خوب سمجھتے اور عملی سیاست میں اس سے کھیلنے اور اس کھیل سے مشکل سیاسی اہداف حاصل کرنے کا فن خوب جانتے ہی نہیں تھے بلکہ اس کے بڑے بینی فشری بننے کے تجربے کے حامل بھی تھے۔

وزیر خارجہ ہو کر بھی کابینہ اور ملک میں سب سے سرگرم وزیر اور ایوب خاں کی آنکھوں کا تارا، 1965کے اوائل جنوری میں صدر جنرل ایوب اور مادر ملت فاطمہ جناح میں صدارتی انتخابی معرکے کی مہم میں جلسوں کے سب سے ڈیمانڈنگ مقرر بن گئے۔ مقابل متحدہ اپوزیشن کو خوب ادھیڑتے، ملک خصوصاً پنجاب میں انہوں نے ایوب حکومت کے حامیوں کے دل موہ لئے۔

 الیکشن ہوئے تو مشرقی پاکستان اور کراچی و حیدر آباد میں شدت سے متنازعہ قرار پائے، احتجاجی جلسے جلوسوں کا سلسلہ چل پڑا تو حکومت نے اپنے دعوے کے دلدلی متنازعہ سرحدی علاقے میں سرجیکل اسٹرائیک کرکے رن آف کچھ والی محدود جنگ سے بنتا مخالف سیاسی ماحول تبدیل کر دیا۔ 

انٹرنیشنل ٹربیونل کی مدد سے رن آف کچھ کا تنازعہ حل کرنے پر اتفاق سے جنگ بھی چند روز میں بند ہو گئی لیکن وزیر خارجہ بھٹو نے ایوبی عہد کے زوال کی دستک سن لی تھی ۔ ناچیز اور وقت کے واقفانِ حال کا تجزیہ یہ ہی ہے کہ اس مرحلے پر بھٹو صاحب ’’جنگی ہیرو شپ‘‘ کے حصول کو اپنا سیاسی ہدف بنا چکے تھے پھر جنرل اختر ملک اور سیکرٹر ی امور خارجہ عزیز احمد سے میل ملاپ کرکے آرمی +مجاہدین کے ذریعے مقبوضہ کشمیر آزاد کرانے کے لئے بڑی سرجیکل اسٹرائیک بنام ’’جبرالٹر آپریشن‘‘ ترتیب دیا جو فروری 19بالا کوٹ میں بھارتی کوا مار سرجیکل اسٹرائیک کے برعکس دفاعی کامیابیوں سے جھولی تو بھر رہی تھی لیکن ایک دو روز کے لئے آپریشن روکا نہ جاتا تو اکھنور کی فتح کے بعد عسکری ذریعے سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کا امکان تیزی سے روشن ہو رہا تھا۔ 

عجب یہ تھا کہ سیالکوٹ سے لیکر صحرائی ساحلی علاقوں تک طویل اور حساس پاک بھارت سرحد بغیر کسی جنگی تیاری اور الرٹ کے خالی پڑی تھی، جبکہ بھارت آپریشن جبرالٹر کی 48جیسی ہوتی کامیابیوں سے گھبرا کر مکمل تیاری سے طویل سرحد کے لاہور، قصور اور سیالکوٹ جیسے حساس ترین پاکستانی سرحدی علاقوں پر بھرپور حملہ کرکے لاہور پر جلد سے جلد قبضے کو پہلا ہدف بنا چکا تھا۔

 جنگ ہوئی پاکستان مملکت خداداد ثابت ہوا بڑی عسکری تیاری کے متذکرہ خلا کے باوجود پاکستان نے اچانک بڑے بھرپور بھارتی حملے کو پہلے تو کچھ نقصانات کے باوجود نہ صرف سہہ لیا بلکہ پلٹ کر جو کامیاب ترین مزاحمت کی پھر ایئر فورس نے جو لوہا منوایا اس نے دفاع پاکستان کو یقینی بنا دیا۔

 سیسہ پلائی ہوئی دیوار کا محاورہ لڑتے فوجیوں کے شانہ بشانہ عمل میں ڈھل گیا۔ پاکستان کی اس جنگ میں بڑی فتح یہ تھی کہ اس کی قومی دفاعی صلاحیت 5گنا بڑے دشمن کے مقابل مکمل ٹیسٹ ہو کر مکمل کامیاب ہوئی جبکہ بھارتی شکست یہ تھی کہ وہ جنگی تیاری اور حجم میں کئی گنا بڑا اور اچانک حملہ آور ہو کر بھی ’’ لاہور پر قبضہ‘‘ کا جنگی ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اپنی ائیر فورس برباد کر ا بیٹھا یوں بھارتی دفاعی صلاحیت حوصلہ شکنی کے بلند درجے پر پوری دنیا میں بے نقاب ہوئی۔

قارئین کرام! محسن پاکستان کا اپنے وطن کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے تاریخ ساز علمی کردار، ملکی سیاسی تاریخ پاکستان کی موجودہ ایٹمی دفاعی صلاحیت، دشمن کے ارادوں اور تیزی سے بدلتی صورتحال کے تناظر میں قوم خصوصاً نئی نسل کے ذہن نشین رہنا ہماری ایک بڑی علمی قومی ضرورت ہے اس سے ایٹمی پاکستان کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی دفاع پاکستان کے لئے مکمل نتیجہ خیز خدمات کا احاطہ ہونے میں بھی مدد ملے گی جو انہیں بمطابق اور مطلوب خراج تحسین و عقیدت پیش کرنے کا بھی تقاضاہے سو آئندہ ’’آئین نو‘‘ بھی زیر بحث موضوع پر ہی جاری رہے گا جس میں واضح کیا جائے گا کہ اکثر و بیشتر سیاسی عدم استحکام میں مبتلا پاکستان کے ایٹمی پاکستان بننے کا مرحلہ وار سفر کیسے اور کتنی عظیم کامیابیوں کے ساتھ حتمی کامیابیوں تک جاری و ساری رہا۔ (جاری ہے)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔