ڈاکٹر عبد القدیر خان بنام سرکار

ای سیون اسلام آباد کے ایک چھوٹے سے گھر کا مکین جنت مکانی ہوگیا۔اپنی زندگی کا نصف سے زیادہ حصہ پاکستان کے لئے صرف کرنے والا شخص، اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔پاکستان کی قسمت میں فخر اور مسرت کے چند دن ہیں تو وہ اسی مردِ دانا کے مرہون منت ہیں۔

ذرا تصور تو کریں کہ 14 اگست کے بعد اگر 28 مئی ہماری تاریخ میں نہ ہوتی تو تاریخِ پاکستان کا کیا حال ہوتا۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد جس شخصیت کو زندگی کے تمام شعبوں میں بے مثال پذیرائی اور محبت ملی انکا نام ڈاکٹر عبد القدیر خان ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد میں یکساں طور پر مقبول تھے۔

پوری قوم یہ سمجھتی تھی کہ پاکستان کو محفوظ اور مامون بنانے میں انکا بنیادی کردار ہے وہ حسن صورت کیساتھ ساتھ حسن سیرت کا بھی شہکار تھے۔ انتہائی نرم اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے۔ ایک مستقل مسکراہٹ انکے چہرے پر رقصاں رہتی تھی۔وہ پاکستان کے محسن تھے۔ انکی وجہ سے پاکستان کا مستقبل محفوظ ہوا تھا۔انہوں نے اپنی ساری زندگی تحفظ پاکستان کیلئے صرف کر دی تھی لیکن ان کیساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا گیا وہ بھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

وہ ایک حساس دل کے مالک تھے، یہی وجہ تھی کہ سانحہ 1971ءکے بعد وہ پاکستان کے مستقبل کیلئے مستقل سوچ و بچار کرنے لگے۔ وہ ہر صورت میں پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانا چاہتے تھے۔ پاکستان سے محبت انکے رگ و پے میں سرایت کئے ہوئے تھی۔ وہ دشمن کے عزائم سے آگاہ تھے۔

انہوں نے دشمن کے ارادوں کو ناکام بنانے کے لئے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو خط تحریر کیا اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لئے اپنی خدمات پیش کیںاور پھر صلہ اور ستائش کی تمنا کیے بغیر اپنے کام میں کچھ اس طرح مصروف ہوئے کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر دم لیا۔

لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جس شخص نے ہمارے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے اپنا مستقبل قربان کیا،پرکشش غیر ملکی نوکری چھوڑی،آرام دہ زندگی کو خیرباد کیا،یہاں سہولتوں کی عدم دستیابی کے باوجود دل چھوٹا نہ کیا،افسر شاہی کے رویے، ان کا عزم متزلزل نہ کر سکے،تھوڑا معاوضہ ان کے راستے کی رکاوٹ نہ بن سکا،ساتھیوں کے رویے انہیں مایوس نہ کر سکے،عالمی سطح کی کردار کشی ان کے قدم نہ روک سکی،اسی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہم نے گھر تک محدود کر دیا۔

جس شخص نے پوری دنیا میں ہمارے لئے عزت کے دروازے کھولے تھے اس شخص پر ہم نے آزادی کا دروازہ بند کر دیا۔ جس شخص کی وجہ سے ہم دنیا میں سر اٹھا کر چلتے ہیں اس شخص کو سر جھکا کر وقت کے حکمران کے سامنے بٹھا دیا۔ اور وہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں سے اپنی آزادی کا پروانہ حاصل کرنے کے لئے تاریخ پہ تاریخ لیتا رہا۔

کبھی اسلام آباد ہائی کورٹ کی راہداریوں میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان بنام سرکار کی آواز پڑتی تو کبھی سپریم کورٹ میں اور پھر آزادی کے پروانے کی تلاش میں وہ زندگی کی قید سے ہی آزاد ہوگئے۔ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیساتھ روا رکھے گئے سلوک کی ذمہ دار ہے۔2004ءمیں جب انکی نظر بندی کا آغاز ہوا اس وقت سے لیکر انکے وصال تک تمام سیاسی رہنماؤں نے مجرمانہ غفلت کا ثبوت دیا۔ 2008 سے لیکر 2013 ءتک پاکستان پیپلز پارٹی برسر اقتدار رہی لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیلئے اطمینان کے دروازے نہ کھل سکے

2013 سے 2018 تک مسلم لیگ نون برسر اقتدار رہی لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تلخیاں کم نہ کی جا سکیں۔2018ءسے لیکر اب تک جناب عمران خان نے بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ وہی کیا جو ان کے پیشرو کرتے آرہے تھے۔ انہوں نے تو ان کے جنازے میں شرکت کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ ایٹمی پروگرام کا آغاز کرنے والی جماعت کے سربراہ نے جنازہ میں شرکت نہ کی البتہ سید مراد علی شاہ نے شرکت کر کے کچھ بھرم تو رکھ لیا۔

سید مراد علی شاہ نے واقعتا ایک فعال وزیر اعلیٰ کا کردار ادالیکن توفیق عثمان بزدار سمیت کسی حکومتی عہدیدار کو نہ مل سکی۔ ایٹمی دھماکوں کے بٹن دبانے کا کریڈٹ لینے والی جماعت کے سربراہ،میاں شہباز شریف،جنوبی پنجاب کو رونق بخشنے والے میاں حمزہ شہباز تو کجا نچلی سطح کے کسی عہدیدار نے جنازہ میں شرکت نہیں کی۔

پی ڈی ایم کے روح رواں مولانا فضل الرحمٰن جناب اسفند یار ولی سمیت پاکستان کی سیاسی اشرافیہ نے شرکت نہ کرکے منفی پیغام دیا جو از حد افسوسناک ہے۔کیا قوم کے محسنوں کیساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟کیا ڈاکٹر عبدالقدیر خان اسی سلوک کے حقدار تھے۔؟ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی آزادی کے لئے آخری مرتبہ 2019ءمیں سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنی درخواست دائر کی اور تین برسوں میں صرف پانچ سماعتیں ہوسکیں۔

ساری عمر اس ملک کی خدمت میں صرف کرنے والے عمر رسیدہ بزرگ کی زندگی کے آخری ایام سپریم کورٹ آف پاکستان کے ترازو کی طرف دیکھتے ہوئے گزر گئے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک سچے عاشقِ رسول اور تصوف سے شغف رکھنے والے مسلمان ایٹمی سائنسدان تھے اسلام کے متعلق ان کا وژن بہت واضح تھا۔

میرے والد ضیاالامت حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کے ساتھ ان کا ایک تعلق خاطر موجود تھا۔جب بھی ملاقات ہوتی نہایت عقیدت و احترام سے ملتے۔پیر صاحب کی تحریر کردہ تمام کتب ان کے مطالعہ میں رہتیں۔ روزنامہ جنگ میں شائع ہونےوالے انکے کالم انکے ذہن کی عکاسی کرتے تھے۔وہ اسلامی روایات کے علمبردار تھے اور اسلام کا وہ چہرہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے جو رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے سامنے پیش کیا تھا۔ ماہ ربیع الاول میں ان کی رحلت ان کیلئے بلند بختی کا باعث ہوگی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے لوگ قدرت کا تحفہ ہوتے ہیں۔آج وہ تحفہ ہم سے واپس لے لیا گیا۔اللہ کریم انکے درجات بلند فرمائے۔آمین

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔