پاکستان۔ شدید خطرات میں

پاکستان معاشی ، سیاسی اور خارجہ پالیسی کے محاذ پر جن مشکلات اور تنہائیوں کا شکار ہے اور عوام مہنگائی ، بے روزگاری اور عدم تحفظ کے جس خوفناک دور سے گزر رہے ہیں۔ ایسا وقت پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جہاں تک حکومت کی کارکردگی کا ذکر ہے تو گزشتہ تین سال سے حکومت کہیں نظر نہیں آرہی ، سوائے اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں وقت ضائع کرنے کے۔ جس کا آج تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

عمران خان صاحب یا تو قوم کو وعظ و نصیحت اورلیکچر دیتے رہتے ہیں یا موجودہ مہنگائی ، بیروزگاری اور دیگر مسائل کو حل کرنے کی بجائے اس کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر ڈالتے رہتے ہیں۔ یہی حال ان کے دیگر وزراء اور مشیروں کی فوج کا ہے ۔ اب یہ باتیں سن سن کر عوام کے کان پک گئے ہیں ۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ گزشتہ حکمرانوں کی ’’ بد اعمالیوں کا مداوا موجودہ حکمرانوں کی ’’خوش اعمالیوں‘‘ سے کب ہوگا؟ یہ دعویٰ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے کہ ملک کے عوام خوشحال ہو گئے ہیں۔

جن کی پہنچ سے دو وقت کی روٹی بھی دور ہو چکی ہے۔ سابقہ دور میں آٹا، چینی ، پیٹرول، بجلی ،ادویات اور دیگر روزمرہ کی اشیائے ضرورت آج کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم قیمت پر دستیاب تھیں۔آج ڈالر آسمان کو چھو رہا ہے اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں بہتری تو کُجا ، خوفناک تنزلی نہ آئی ہو۔ سیاسی عدم استحکام کا یہ عالم ہے کہ عمران خان ، اپوزیشن کے کسی لیڈر سے ہاتھ تک ملانا پسند نہیں کرتے۔

حالانکہ وہ پاکستان کے لاکھوں شہریوں اور معصوم بچوں کے قاتلوں تک سے گفتگو کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے سیاسی اختلافات کو شاید ذاتی انتقام بنا لیا ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت نیب کی جانب سے اپوزیشن کا یکطرفہ احتساب ہے۔ جبکہ ان کی حکومت کے دوران ہونے والے گندم ، چینی ، ادویات ، پیٹرول، گیس ، مالم جبہ اور فارن فنڈنگ کے کیسزنیب کے حکام کو نظر نہیں آتے۔ نیب کی اسی کارکردگی کے صلے میں غالباًنیب چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کو آئین کے برعکس ایک صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے ان کے عہدے میں توسیع دے دی گئی ہے۔ جسکی ملک کے ہر طبقے کی طرف سے شدید مخالفت کی جارہی ہے۔

جمہوری قدروں کی پامالی کے نئے نئے ریکارڈ قائم ہورہے ہیں۔وہ الیکشنوں کے دوران پولنگ عملے کا اغوا ہو یا چیف الیکشن کمیشنر کے خلاف بیانات یا الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال یا نیب آرڈیننس اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی بجائے شاہی انداز میں حکم صادر کرنا۔ اس دور میں میڈیا سب سے زیادہ پابندیوں کا شکار ہے ۔تمام قابلِ ذکر صحافی ، اینکرپرسنز اور میڈیا ہائوسز کو مختلف الزامات کے تحت مین اسٹریم سے فارغ کردیا گیا ہے۔

کیا انہیں نوکریوں سے محروم کرکے اختلافِ رائے کی سزا نہیں دی گئی؟ میڈیا ڈویلپمنٹ بل کے نام سے سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کو کڑی سزائوں کی نوید سنا دی گئی ہے۔ ایسی ابتر صورتِ حال تو جنرل ضیاء کے علاوہ کسی مارشل لا حکومت میں بھی نہیں تھی۔ حکومت کی ’’کارکردگی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران کئی وزرائے خزانہ ، وفاقی اور صوبائی سیکرٹریز اور پولیس افسران کے تبادلے کئے گئے ہیں۔ جس نے گڈ گورننس کے دعوئوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔

یہ تعداد اتنی زیادہ ہے جسکی مثال کم از کم پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی اس کے باوجود غنڈہ گردی ، بدامنی اور جرائم کی شرح بڑھتی جار ہی ہے۔ عالمی اور خارجہ پالیسی کے محاذ پر حکومتی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ آج پاکستان دنیا میں تقریباََ تنہا ہوچکا ہے۔ اس خطّے میں پاکستان کا سب سے بڑا دوست چین بھی پریشان ہے کیونکہ حکومت میں آنے سے پہلے چین کے صدر کو عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے اپنا دورہ منسوخ کرنا پڑا اور حکومت میں آنے کے بعد کچھ وزراء کے چینی ٹھیکوں کے بارے میں بیانات اورسی پیک پر سست رفتاری نے دونوں ممالک کے درمیان گرم جوشی کو متاثر کیا۔

عمران خان اگرچہ خود کو ہر شعبے اور ہر سبجیکٹ کا ماسڑ سمجھتے ہیں لیکن ان کے غیر ذمہ دار بیانا ت نے گزشتہ تین سال میں مقتدر حلقوں کو کافی پریشان کئے رکھا ہے جس کے لئے انہیں وضاحتیں دینےخود سعودی عرب اور چین جانا پڑا۔ طالبان کی افغانستان میں آمد کے بعد اسے عوام کی فتح قرار دینا اور امریکا کو شکست کے طعنے دینا، انتہائی بچگانہ اور غیر سیاسی عمل ہے جس کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

ہم طالبان کے ترجمان بنے ہوئے ہیںجبکہ انہوں نے گزشتہ کئی دن سے چمن بارڈربند کردیا ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان کے حملے تیز ہوگئے ہیں۔ جبکہ دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کے خلاف سینیٹ میں قرارداد کے ذریعے اپنے ارادوں کا اظہار کردیا ہے ۔

یہ ایسانازک وقت ہے کہ حکومت کو پارلیمنٹ کے ذریعے ایک متفقہ پالیسی کا اعلان کرنا چاہئے تھا لیکن حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ تقرریوں کے حوالے سے مقتدر حلقوں کے ساتھ بھی تعلقات کو دائو پر لگا دیا ہے۔ ان حالات میں پاکستان واقعی شدید خطرات کی زد میں ہے۔ (کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998

مزید خبریں :