مذہب کارڈ کا استعمال۔آخر کب تک

پاکستانی سیاست میں مذہب کارڈ کا استعمال کوئی نئی چیز نہیں۔تاہم اس کے منفی استعمال کا رجحان 80 کی دہائی کے بعد زیادہ دیکھا گیا۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو فروغ بھی اسی دور میں حاصل ہوا۔

80 کی دہائی میں دو مکاتب فکردیو بندی اور اہل تشیع کے مابین کشیدگی عروج پر رہی۔ دونوں مکتب فکر کے کچھ لوگوں نے کالعدم تنظیمیں بھی بنائیں۔تاہم جب تک ان دونوں کالعدم تنظیموں کے لوگ اپنے اکابرین کی بات سنتے رہے یا ان کی ہدایات کو اہمیت دیتے رہے تب تک ان کی سرگرمیوں میں شدت کا عنصر قدرے کم رہا۔

لیکن جونہی انہوں نے اپنے آپ کو بزرگوں کی چھتری سے علیحدہ ہوکر الگ راستہ اختیار کیا تو دنیا نے دیکھا کہ نہ صرف ان کے مکاتب فکر کے لوگوں نے ان سے دوری اختیار کرلی بلکہ ان کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں آ گیا۔طالبان بھی جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فارغ التحصیل طلبہ پر مشتمل لوگوں کا ایک گروہ تھا۔جب تک وہ اپنے اساتذہ اور بزرگوں کی رائے کو اہمیت دیتے رہے تب تک ان کے رویوں میں بھی قدرے اعتدال رہا۔

مذہب کارڈ افغان جہاد میں بھی استعمال ہوا جس کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں کئی شدت پسند مسلح گروہوں نے جنم لیا۔جس سے نہ صرف ملکی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوئے بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کے تشخص کو شدید نقصان پہنچا۔اس ساری کشمکش کے دوران ملک میں سواداعظم سمجھے جانے والے مکتب فکر اہل سنت و جماعت کے لوگ جنھیں بعض حلقوں میں بریلوی بھی کہا جاتا ہے وہ اس ساری صورتحال سے الگ تھلگ رہےکیونکہ اہل سنت و جماعت صوفیا کے مسلک پر چلنے والے لوگ ہیں۔

محبت کی زبان بولتے ہیں اور محبت کی زبان ہی سمجھتے ہیں۔اس مکتب فکر سے وابستہ خانقاہیں غرباء اور مساکین کی پناہ گاہیں ہیں۔اس مسلک کی جانب سے شدت پسندانہ رویے کا اظہار ایک حیران کن عمل تھاجس کی جھلک پہلی دفعہ اس وقت دیکھنے میں آئی جب علامہ خادم حسین رضوی مرحوم نے تحفظ ناموس رسالت و ختم نبوت کے معاملہ پر 2017 میں ایک دھرنا دیا۔

تمام باخبر حلقے اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ اس دھرنے کے سیاسی مقاصد تھے ان کے دھرنے کے نتیجے میں کچھ وزراء کو مستعفی ہونا پڑا۔ اگرچہ جمہور علماء اور مشائخ اس جماعت کے ساتھ نہ تھے تاہم بعض حلقوں کی خاموش حمایت کےسبب انہوں نے طاقت پکڑ لی ۔تحریک انصاف کی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس تحریک نے متعدد مرتبہ سڑکوں پر آکر احتجاج کیا۔عوام کی ایک بڑی تعداد نے ان کا ساتھ دیا۔گستاخانہ خاکوں اور فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے معاملے پر موجودہ حکومت نے انتہائی بے تدبیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک کمزور معاہدہ کیا اور ایک ایسے وعدے پر دستخط کر دیے جس کو پورا کرنے کی وہ صلاحیت ہی نہیں رکھتی تھی، پھر اسی معاہدے کی بنا پر حکومت بلیک میل ہوتی رہی۔

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن سے شروع ہونے والے احتجاج نے پوری دنیا کو ایک مرتبہ پھر پاکستان کی طرف متوجہ کر دیا۔لاہور سے شروع ہونے والے اس احتجاج کومذاکرات کے ذریعے بہتر انداز میں منتشر کیا جا سکتا تھا۔لیکن وزیر داخلہ کی بے موقع شعلہ بیانیوں نے معاملہ بگاڑ دیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ تصادم میں متعدد پولیس اہلکار اور احتجاج کے شرکا شہید ہوگئے۔ان بے گناہ جانوں کے ضیاع کے ذمہ دار وہ عاقبت نااندیش عناصر ہیں جنہوں نے حکومت میں بیٹھ کر معاملہ سلجھانے کے بجائے جلتی پر تیل ڈالا۔آخر کار اتوار کی شام کو یہ احتجاج اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا ملک مذہب کارڈ کے استعمال اور اس نوعیت کی بلیک میلنگ کا متحمل ہوسکتا ہے؟

پاکستان اس وقت نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ایک طرف مسلح افواج نے ملک کے تمام شورش زدہ علاقوں میں آپریشن کرکے ریاست کی رٹ بحال کی ہے تودوسری طرف انٹیلی جنس کے محاذ پر بھی اپنے دشمن ملک بھارت کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔پاکستان کا ایٹمی پروگرام دشمن کی آنکھوں میں مسلسل کھٹک رہا ہے،ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان کے گرد معاشی شکنجہ کسنے کی تیاریاں زوروں پر ہیں،عالمی برادری کی طرف سے دیے گئے ٹاسک پورا کرنے کے لیے تمام ریاستی ادارے بشمول مسلح افواج دن رات مصروف عمل ہیں،لیکن سیاسی طور پر پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔،

اس وقت مہنگائی نے عوام میں بے چینی پیدا کردی ہے،حکومت کی ناقص پالیسیوں کی بدولت عام آدمی کا جینا محال ہو چکا ہے،سیاست اور معیشت، دونوں میدانوں میں قحط الرجال اور بے تدبیری بھی عروج پر ہے۔مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے عوام ایک ٹائم بم کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کے بار بار کہنے کے باوجود عوام ان کے ساتھ احتجاج کرنے کیلئے موثر تعداد میں نہیں نکلے لیکن اگر دوبارہ مذہبی مسئلہ کھڑا کر دیا گیا تو پھر اس ٹائم بم کو پھٹنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ملک دشمن طاقتیں اس موقع کے انتظار میں ہیں کہ کب ملک میں بد امنی پھیلے اور وہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام سبوتاژ کرنے کے اپنے دیرینہ مذموم مقاصد کیلئے سرگرمِ عمل ہو سکیں۔

اسلئے موجودہ حکومت کو نہ صرف ہوش کے ناخن لینا ہونگے بلکہ ایسے اقدامات سے بھی گریز کرنا ہوگا کہ جن کی وجہ سے ضرب عضب اور ردالفساد کا ثمر ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہو۔اہلسنت کے جید علما و مشائخ کو بھی فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔اپنے اصل تشخص کی بحالی کیلئےعملی اقدامات کرنا ہوں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔