پاکستان
Time 03 نومبر ، 2021

’نامعلوم‘ معاہدہ اور ریاستی رٹ

بس ایک ’ معاہدہ‘ ہی نامعلوم ہے باقی تو سب معلوم ہے کہ کیا، کہاں اور سب کیسے ہوا۔ بات ’ابہام اور فنی خرابی‘ سے شروع ہوئی تھی اور اختتام ذمہ داروں کی ذمہ داری لینے پر ہوئی ۔ خیر جو ہوا اچھا ہوا مگر وقتی، کیا کوئی یہ بھی کبھی گارنٹی دے سکتا ہے کہ میں آئندہ کبھی دھرنا نہیں دوں گا۔ 

جیت بہرحال تحریک لبیک کی ہی ہوئی اب یہ بات کوئی مانے یا نہیں، اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ کیا کالعدم تحریک طالبان سے بھی کوئی ’ خفیہ معاہدہ‘ ہوگیا ہے یا ابھی بات چیت جاری ہے ؟ رہ گئی بات ریاستی رٹ کی تو بس اس کو رہنے ہی دیں ۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ ہم بڑی تیزی سے’انتہا پسندی‘ کی طرف بڑھ رہے ہیں نتائج کی پروا کیے بغیر۔

ہمارے ایک دوست نے حال ہی میں لکھا کہ جنرل ضیاالحق کو ایک مخصوص لابی اس لیے بدترین آمر کہتی ہے کیونکہ اس نے بہت سی اسلامی اصلاحات نافذ کیں۔ حیرت ہوتی ہے ایسے لوگوں پر کہ وہ کچھ نہیں تو صرف 1981کے ریفرنڈم کے وہ پانچ سوالات نکال لیں اور پانچ فیصد ووٹ ملنے پر صدر بننے کی منطق پر غور کریں کہ کوئی شخص 90 روز میں الیکشن کا وعدہ کرکے وعدہ خلافی کرے تو ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت قابل قبول ہوسکتا ہے؟لہٰذا غلط استعمال، مذہب کا ہو یا لبرل وسیکولر سوچ کا نقصان معاشرہ اٹھاتا ہے۔

آگ سے کھیلنے کا شوق ہمارا پرانا ہے، یہ جانے بغیر کے جب آگ کے شعلے بلند ہوتے ہیں تو ان کی لپیٹ میں آگ لگانے والا بھی آجاتا ہے۔ تصورکریں یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں ایک طرف، ریاست مدینہ، کا نام استعمال ہورہا ہے تو دوسری طرف تحریک لبیک والے سڑکوں پر۔کل تک قومی سلامتی کے اجلاس میں یہ رپورٹ دی جارہی تھی کہ اس سب کے پیچھے ’بھارت‘ ہے یعنی’را‘ کا نیٹ ورک ، مالی معاونت وغیرہ۔

پنجاب ہوم ڈپانمنٹ نے رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں جمع کرا دی، تحریک لبیک کے سربراہ حافظ سعد رضوی کی نظر بندی کا جواز پیش کرنے کیلئے۔اب نہ اس رپورٹ کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی تحریک کا لعدم رہے گی ۔ سعد رضوی صاحب بھی جلد باعزت رہائی پائیں گے۔ اب میں اس سارے معاملے کو ریاست کی ناکامی لکھوں یا ٹی ایل پی کی ایک اور کامیابی ۔باقی باتیں اس وقت جب نامعلوم معاہدہ معلوم ہوجائے گا ابھی تو وقتی بحران ٹل گیا ہے۔

2014 کا دھرنا تو یاد ہوگا ۔ایک صاحب تھے ڈاکٹر علامہ طاہر القادری جنہوں نے تحریک کا آغاز تو عمران خان کے ساتھ کیا تھا مگر اچانک ایک ’نامعلوم معاہدہ‘ کرکے صبح صبح نکل لیے تھے۔ یاد ہے کفن پوش بھی تیار تھے اور قبریں بھی۔ کیا وہاں ’مذہبی کارڈ‘ استعمال نہیں ہوا ۔رہ گئی بات ماڈل ٹائون کے شہیدوں کی تو بس اتنا ہی انصاف یہاں ملتا ہے جتنا انہیں ملا یعنی کچھ نہیں ملا۔

1977میں بھی تواتنی بڑی’تحریک نظام مصطفیٰﷺ کا انجام ایک مارشل لا پر اور اس پر بھی جشن پھر سب بھول گئے اور بکھر گئے۔ 1988میں اسلامی جمہوری اتحاد کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ رہنے دیں آگے بڑھتے ہیں پلٹ کر دیکھنے سے کیا حاصل۔

یہ سب اقتدار کی سیڑھی کے راستے ہیں۔ کوئی اقتدار بچانے کے لیے ایسے حربے استعمال کرتا ہے تو کوئی اقتدار میں آنے کے لیے حسرت بھری نگاہ سے اسی طرف دیکھتا ہے۔ پچھلے تین ہفتوں سے ملک پر ایک ہیجان طاری تھا۔6اکتوبر کو ’نوٹیفکیشن‘ پرغیر ضروری اعتراض سے معاملہ شروع ہوا ۔ 

بات اتنی سادہ نہیں تھی جسے’ ابہام اور فنی خرابی ‘ کا نام دیا گیا۔ میں نے 4 اکتوبر 2021 کا ISRR کا پریس ریلیز دیکھا جس میں جنرل ندیم اعجاز کی بطور ڈی جی ISIتقرری کا ذکرتھا اور پھر ماضی کی دو پریس ریلیز بھی نظروں سے گزریں یعنی10 اکتوبر2018کو جنرل عاصم منیر اور 16جون، 2019 کو جنرل فیض حمید کی بطور ڈجی ISI تقرری، تینوں میں کوئی فرق نہیں تھا اور یہ تینوں تقرریاں موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے دور میں ہوئیں نہ کوئی انٹرویو نہ وزیر اعظم ہائوس سے پریس ریلیز جاری کرنے کا معاملہ۔ 

لگتا پھر یہی ہے کہ اعتراض طریقہ کار پر نہیں خواہش کچھ اور تھی۔ایسی ہی خواہش بے نظیر بھٹو شہید کی تھی جب انہوں نے جنرل(ر) شمس الرحمان کلو کو ڈی جی ISI مقرر کیا تھا تو کلو صاحب کو ہزیمت اٹھانی پڑی اور بی بی کو جانا پڑا۔

میاں نواز شریف اپنی خواہش کے مطابق جنرل ضیا الدین بٹ کو ڈی جی لے آئے اور یہ سمجھ بیٹھے کے’ سویلین بالادستی‘قائم ہوگئی اور ایک قدم آگے بڑھ گئے یہ سوچے بغیر کہ اقتدار کی سیڑھی کا راستہ دکھانے والے خود بھی تو آسکتے ہیں۔

ہمارے کچھ قابل احترام دفاعی تجزیہ کاریہ دلیل دیتے ہیں کہ جی یہ سیاست دان اسی سیڑھی پر لائن کیوں لگا لیتے ہیں‘۔ پھر کہتے ہیں اصغر خان کیس میں فوج تو جنرل اسلم بیگ کا ٹرائل کرنے کو تیار تھی مگر بے نظیر ان لوگوں کا ٹرائل نہیں چاہتی تھیں، جنہوں نے پیسے لیے۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے پیسے دینے والے کو پکڑتے تو پھر ان کو بھی پکڑتے جنہوں نے پیسے لیے۔

اس مقدمہ کا فیصلہ1990میں ہوجاتا توآج سیاست میں کرپشن کے رجحان میں کچھ کمی آجاتی۔رہ گئی بات لائن لگانے کی تو حضور شریف برادران تو سیڑھی کے راستے اوپر نہیں گئے تھے ان کو اوپر لے جانے کے لیے آپ نیچے آئے تھے ورنہ ان کا سیاست سے کیا لینا دینا تھا۔ بات قومی سلامتی کی ہو تو سمجھ میں آتی۔ ملک پر آنچ آئے تو پوری قوم دفاع کے لیے تیار ۔

ذرا سوچیں اگر تحریک لبیک 2018 میں نہ ہوتی تو الیکشن میں پنجاب اور کراچی کے نتائج کیا ہوتے۔ وہ کس کا ووٹ لے گئے تھے۔ شاید آپ کو آج بھی ان کی ضرورت ہے۔ مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کے لیے کوئی استعمال ہوتو ٹھیک ورنہ بھارت سے تعلقات جوڑ دو۔ چالیس سال سے اس ملک میں غیر ریاستی بیانیہ کو اوپر جاتے ہی دیکھا ہے اگر ریاست اس سب کے لیے تیار ہے تو ٹھیک ہے بس اتنا سمجھ لیجئے کہ آگ سے کھیلیں گے تو شعلوں سے اقتدار کی سیڑھی بھی لپیٹ میں آسکتی ہے۔ ریاست ایک پھل دار درخت کے مانند ہوتی ہے جو ہمیشہ جھکتا ہے مگر اس کا پھل سب کو ملے تو بہتر ہے ورنہ یہ کیا کہ کہیں نامعلوم معاہدہ اور کہیں لوگ نامعلوم۔

مزید خبریں :