بلاگ
Time 05 نومبر ، 2021

چاپلوسی کی داستان اور شعیب اختر

اللہ کے رسولؐ نے فرمایا . . . . ’’خوشامد کرنے والوں سے بچو کیونکہ خوشامدی تمہارے منہ پر گارا مل رہا ہوتا ہے . . . .‘‘ اس سے پہلے کہ چاپلوسی کی داستان بیان کی جائے، باب العلم حضرت علیؓ کا فرمان بھی پڑھ لیجئے . . . .’’زبان کے پیچھے انسان چھپا ہوا ہے . . . .‘‘ آج کل ہمارے میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہمارے ہیرو شعیب اختر اور ایک آدمی ڈاکٹر نعمان نیاز کا قصہ عام ہے۔

شعیب اختر کا تو لوگوں کوپتہ ہے کہ وہ دنیا کا تیز ترین بولر تھا، اس نے پاکستان کے لئے یادگار کرکٹ کھیلی۔ وہ کرکٹ ٹیم میں کیسے آیا، یہ کہانی بعد میں۔ پہلے اس آدمی کی داستان پیش کرتا ہوں جس کا نام ڈاکٹر نعمان ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ یہ کسی ریٹائرڈ ڈاکٹر جرنیل کا بیٹا ہے اور اپنے والد کی طرح یہ بھی ایک ڈاکٹرہے۔ شاید اس کی بڑی قابلیت چاپلوسی ہے۔ 

اس کا اندازہ مجھ سمیت قوم کے دیگر افراد کو اس وقت ہوا جب جولائی 2017ء میں قومی کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں وزیر اعظم ہاؤس میں ایک تقریب منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں چاپلوسی اور خوشامد کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کہنے لگے . . . . ’’بی سی سی پی پیٹرن ٹرافی، 74/1973، جم خانہ گراؤنڈ کراچی، پاکستان ریلویز کا مقابلہ پی آئی اے بی سے ہوا۔ ریلوے کے ایک اوپنر محمد نواز شریف تھے،مقابلہ ریلوے نے جیتا، خوش قسمتی ساتھ تھی۔ 25 مارچ 1992ء کو پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا، میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے، 18جون 2017ء کو آئی سی سی چیمپینز ٹرافی جیتی، وزیر اعظم نواز شریف ہیں، سر! 2019ء کا ورلڈ کپ جیتنا ہے، آپ کی اشد ضرورت ہے. . . . ‘‘ یہ جملے انہوں نے نواز شریف اور مریم نواز کی موجودگی میں ادا کئے تھے۔ کاش وہ اس مرحلے پر یہ بھی بتا دیتے کہ محض کرکٹ کھلوانے کے لئے نوازشریف کو بھرتی کیا گیا تھا۔ یہ بھرتی پیپلز پارٹی کے رہنما نوید چودھری کے کہنے پر ہوئی تھی کیونکہ نوید چودھری کے ماموں ریلوے میں بڑے عہدے پرفائز تھے۔

پاکستان ٹیلی ویژن ہمارا قومی ٹی وی ہے۔ اس ٹی وی نے بڑے یاد گار پروگرام کئے۔ اس کے خوبصورت ڈرامے سرحد پار بھی شوق سے دیکھے جاتے تھے۔ پی ٹی وی کے ڈراموں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ڈرامے کے اوقات میں سڑکیں سنسان ہو جایا کرتی تھیں۔ سڑکوں کی یہ سنسانی امرتسر میں بھی نظر آیا کرتی تھی۔ 

وقت نے انگڑائی لی تو ہمارے باقی اداروں کی طرح پی ٹی وی میں بھی بربادی کا کھیل شروع ہوگیا۔ خسارہ حدسے تجاوز کرنے لگا تو پوری قوم پر پی ٹی وی کی مد میں پچیس روپے لگا دیئے گئے۔ اب پوری قوم بجلی کے بل کے ساتھ پچیس روپے پی ٹی وی کیلئے دینے لگی، جونکوں کی پیاس بڑھی تو دس روپے مزید بڑھا دیئے گئے۔ اب جب ہر گھر پی ٹی وی کیلئے 35 روپے دیتا ہے تو پی ٹی وی کے پاس ٹریفک کم کردینے والے ڈرامے نہیں ہیںبلکہ اب تو وہاں ایسے ایسے پروگرام ہیں جہاں قومی ہیروز کی تضحیک کی جاتی ہے۔

پی ٹی وی کو دس سے پندرہ افراد کا ایک گروہ چمٹا ہوا ہے، یہ گروہ ہر دور میں کسی نہ کسی طرح خود کو متحرک رکھتا ہے، ایک دوسرے کے مفادات کی نگہبانی کرتا ہے، ان کی تنخواہیں آٹھ لاکھ سے لے کر 20 لاکھ کے درمیان ہیں۔ جب احمد نواز سکھیرا سیکرٹری اطلاعات تھے تو بطور چیئرمین پی ٹی وی وہ پورے گروپ کو تو نہ چھیڑ سکے مگر انہوں نے ڈاکٹر نعمان نیاز کا پروگرام بند کروا دیا تھا۔ احمد نواز سکھیرا کا موقف تھا کہ بطور ڈائریکٹر اسپورٹس آپ پی ٹی وی انتظامیہ کا حصہ ہیں لہٰذا آپ پروگرام نہیں کرسکتے۔ جونہی احمد نواز سکھیرا تبدیل ہوئے، ڈاکٹر نعمان نیاز جلوہ گر ہوگئے۔ 

وہ بطور ڈائریکٹر اسپورٹس پی ٹی وی سے تقریباً پانچ لاکھ روپے لیتے ہیں، ساتھ ہی فی پروگرام ایک لاکھ روپیہ وصول کرتے ہیں۔ ۔ پی ٹی وی کا طاقتور گروہ جو ایک مافیا کی صورت میں کام کرتا ہے، اس گروپ کو نعیم بخاری نے نتھ یعنی نکیل ڈال دی تھی مگر اس مافیا کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ یہ مافیا نعیم بخاری کو لے ڈوبا۔ نعیم بخاری نے جن افراد کو بورڈ کے ذریعے فارغ کیا تھا اب وہ پھر پی ٹی وی کا حصہ بن چکے ہیں، ان میں ایک آدمی ڈاکٹر نعمان نیاز بھی ہے۔ ان افراد کی واپسی موجودہ ایم ڈی پی ٹی وی کی ملی بھگت کاشاخسانہ ہے۔

قوم حیران ہے کہ ہمارے ٹیکس پر چلنے والے ٹی وی پر جس نے ہمارے قومی ہیرو کی توہین اور تضحیک کی وہ ابھی تک ٹی وی اسکرین پر موجود ہے۔ حکومتی وزراء محض کمیٹی بنانے کی تسلی دے رہے ہیں۔ ایسی بہت سی کمیٹیاں ماضی میں بھی بنیں مگر ان کانتیجہ صفر نکلا۔ سوال یہ ہے کہ قوم کے پیسے سے تو قوم کی توہین نہ کی جائے۔ اگر یہ کمیٹی پی ٹی وی کے اراکین پر مشتمل ہے تو وہ مافیا کے سامنے بے بس نظر آئے گی۔ 

ایسی ہی ایک انکوائری ریڈیو پاکستان میں بھی ہو رہی ہے جہاں مافیا ایک ایسی خاتون کو بچانے کے لئے سرگرم ہے جس نے تعلیمی اسناد میں ہیرا پھیری کی، جس نے شناختی کارڈ میں ردو بدل کرکے نادرا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔ ایسا بہت سے اداروں میں ہو رہا ہے مگر وزارت اطلاعات میں کیوں؟وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب سے ذاتی تعلق کی بنا پر صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے ہوتے ہوئے کوئی توہین، کوئی جعل سازی نہیں ہونی چاہیے، مافیا اور چاپلوسوں کے سامنے حق و انصاف کے ساتھ کھڑے ہو جایئے کہ بقول سہیل اختر ؎

کسی بھی حال میں تم آئینے کو دوش مت دینا

کہ یہ تو صرف منظر کا پس منظر بدلتا ہے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔