بلاگ
Time 16 نومبر ، 2021

عمران خان کو کیا کرنا چاہئے

مہنگائی کا طوفان آتے ہی اپوزیشن نے تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ہیں ،اتحادی بھی ناراض ہیں حالات کی گردش کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ایک وجہ عالمی مہنگائی مگر اس سے بھی بڑی وجہ عمران خان کی اپنی معاشی ٹیم اور اپنے فیصلے ہیں ۔

الیکشن کے مرحلے پر ان سے کچھ گزارشات کی تھیں وہ الیکشن مہم کے دوران عمل پیرا رہے مگر اقتدار کی تقسیم کے وقت ان سے دو بڑی غلطیاں ہوئیں انہی غلطیوں کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے وہ بڑے صوبے کے اقتدار پر پتہ نہیں کس کے کہنے پر تونسہ کے ایک آدمی کو لے آئے ۔ 

وفاقی کابینہ کے سینئر ترین لوگ کہتے ہیں کہ کابینہ میں سب سے سمجھدار فواد چوہدری ہیں اگر عمران خان پنجاب کا اقتدار فوادچوہدری کے حوالے کر دیتے تو لوگ پنجاب کی مثالیں دے رہے ہوتے اور آج عمران خان کو بڑے صوبے میں بیڈ گورننس یعنی برے طرز حکمرانی کا طعنہ بھی سننے کو نہ ملتا ۔ پی ٹی آئی کے پاس اچھا موقع تھا کہ وہ پنجاب سے ن لیگ کا صفایا کر دیتی مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا۔

عمران خان سے ابتدائی ایام میں دوسری بڑی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے غیر سیاسی لوگوں کو بہت اہم سمجھا حتیٰ کہ ملکی خزانے کی لگام بھی ایسے ہاتھوں میں تھما دی جو معیشت سے نابلد تھے ۔مجھے ابھی تک یاد ہے کہ میں نے انہیں کہا کہ اسد عمر آپ کی پارٹی کا اہم آدمی ہے مگر اسے خزانے کا وزیر مت بنانا کیونکہ اسے معیشت کا کچھ پتہ نہیں۔خان صاحب کہنے لگے ’’نہیں، میں نے اسد عمر سے وعدہ کر رکھا ہے، میں خود کہہ چکا ہوں کہ ہمارا وزیر خزانہ اسد عمر ہو گا‘‘ خیر انہوں نے اپنے وعدے کو مقدم جانا وزیر خزانہ نے آتے ہی آئی ایم ایف نہ جانے کا اعلان کیا، ایک کروڑ نوکریوں کا نعرہ لگا دیا، پچاس لاکھ گھروں کی بات کی لیکن پھر کیا ہوا چند ماہ بعد ہی ا ٓئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینا پڑی ۔

آئی ایم ایف والے ہمارے وزیر بہادر سے بات کرنے کو تیار نہ ہوئے تو وزیر اعظم کو خود دبئی جاکر مذاکرات کرنا پڑے۔اس دوران اگر ہمارے دوست ممالک ساتھ نہ نبھاتے تو ہمارا ملک دیوالیہ ہو جاتا ۔پھر وقت آیا کہ وزیر اعظم کو وعدہ فراموش کرنا پڑا، وزیر کو ہٹانا پڑا پتہ نہیں رات گئے کن لوگوں نے معیشت کے سامنے آئینہ رکھ دیا تھا چند ماہ پہلے وزیر اعظم کہنے لگے ’’آپ کی بات درست تھی ویسے بھی ہمیں پہلے ہی دن آئی ایم ایف کےپاس چلے جانا چاہئے تھا، پہلے وزیر خزانہ کے ابتدائی نو ماہ کا خمیازہ بھگت رہا ہوں وہ فاصلہ طے ہی نہیں ہو رہا ‘‘۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جتنا قرضہ پاکستان نے ساٹھ برسوں میں لیا اس سے کہیں زیادہ پچھلی دو حکومتوں نے لیا اس سلسلے میں فواد چوہدری بتاتے ہیں کہ ’’1947ء سے لیکر 2008ء تک پاکستان نے قرضہ لیا صرف چھ ہزار ارب جبکہ 2008ء سے لیکر 2018ء تک یعنی دس برسوں میں 23ہزار ارب قرضہ لیا۔2008ء میں زرداری حکومت آئی اور 2018ء میں نواز شریف کی حکومت رخصت ہوئی۔

 1947ء سے 2008ء تک جو چھ ہزار ارب قرضہ لیا اس سے ہم نے موٹر ویز بنائے، گوادر خریدلیا، اسلام آباد کا شہر بنالیا، ہم نے طاقتور فوج ،بحریہ اور فضائیہ بنالی،ڈیمز بنالئے، کئی ادارے، یونیورسٹیاں، ریڈیو اور ٹی وی سمیت بہت کچھ بنایا 2008ء سے 2018ء کے دس سال میں قرضہ تو 23ہزار ارب لیا مگر بنایا کچھ نہیں ،اس سے ملکی معیشت پر بوجھ بڑھ گیا ہم نے دس ارب ڈالر قرضہ پچھلے سال اتارا، بارہ ارب ڈالر اس سال اتار رہے ہیں، جب آپ قرضے اتاریں گے تو مسائل کا سامنا تو کرنا پڑے گا‘‘

مہنگائی کے طوفان میں چند باتیں تسلیم کرنا پڑیں گی مثلاً ملکی تاریخ میں پچاس سال بعد تین بڑے ڈیم بن رہے ہیں، نوجوانوں کو کاروبار کے لئے قرضے دیئے جا رہے ہیں، کسان کی حالت بہتر ہوئی ہے، وزیر اعظم کی یہ بات درست ہے کہ یورپ میں ہیلتھ انشورنس خریدی جاتی ہے مگر تحریک انصاف کی حکومت لوگوں کو مفت ہیلتھ انشورنس دے رہی ہے۔

سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں میں فرق یہ ہے کہ آج فواد چوری وزیر اعظم کو صاف بتا رہے ہیں کہ ’’ہمارا ووٹر تیس ہزار سے دو لاکھ ماہانہ کمانے والا ہے، ہماری حکومت نے اپنے ہی ووٹر پر بوجھ ڈالا ہے، اپنے ہی ووٹر کو ناراض کیا ہے ‘‘۔یہ بات بالکل درست ہے کیونکہ امیر لوگ تو مافیا کا روپ دھار کر بہت کچھ سمیٹ رہے ہیں جبکہ غریبوں کے لئے ’’احساس‘‘ سمیت کئی پروگرام ہیں مگر افسوس کہ مڈل کلاس یا سفید پوش طبقے کے لئے کچھ بھی نہیں ۔

سرور خان پٹرولیم کے وزیر تھے انہیں جب بھی قیمتیں بڑھانے کے لئے کہا جاتا تو وہ کہتے ’’میں سیاسی آدمی ہوں، مجھے عوام کا سامنا کرنا ہے، عوامی مزاج کے خلاف کیسے جا سکتا ہوں‘‘۔

سرور خان کے دور میں جو خسارہ 32ارب تھا اب وہ آٹھ سو ارب تک پہنچ گیا ہے، سرور خان کے دور کا خسارہ دراصل خسارہ نہیں تھا بلکہ یہ 32ارب حکومت کی سبسڈی کی رقوم کی ادائیگی نہ ہونے کے باعث تھا۔بعد میں ندیم بابر اور تابش گوہر جیسے غیر سیاسی لوگ خسارے کو آٹھ سو ارب تک لے گئے ۔پچھلے دو سال میں او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل اپنے ٹارگٹ پورے نہیں کر سکے بلکہ انہوں نے ایک بھی ڈرلنگ نہیں کی۔

ڈالر کی اونچی اڑان میں حکومتی معاشی ٹیم کی ناکامی بول رہی ہے ۔اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نائیجیریا اور مصر میں بہت کچھ کرکے آئے ہیں اب وہ پاکستان میں بھی وہی کھیل، کھیل رہے ہیں،عاصمہ جہانگیر کے اس رشتہ دار کو ا ٓئی ایم ایف میں تاحیات پنشن کے قابل بننے کےلئے ابھی دو سال کا عرصہ درکار ہے لہٰذا یہ دو سال تو وہ آئی ایم ایف ہی کے وفادار رہیں گے ، آخر پچیس ہزار ڈالر ماہانہ پنشن کا مسئلہ ہے پھر یہ پنشن تاحیات بھی ہے۔

ڈالر کی پرواز میں دوسرے قصور وار رزاق داؤد ہیں وہ اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے کاروبار کا تحفظ کرنے کے چکر میں ملکی معیشت کی پروا نہیں کر رہے ،آج سارا پریشر درآمدات کی وجہ سے ہے ۔

 ذاتی کاروباری مفاد کی وجہ سے ڈالر اوپر جا رہا ہے ۔تیسرے قصور وار وزیر خزانہ ہیں جو افراط زر کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئے ہیں اسی وجہ سے عام آدمی متاثر ہو رہا ہے، پچھلے سال جو کسان خوش تھا آج کھاد کے ہاتھوں وہ بھی پریشان ہے، عمران خان کو اپنی معاشی ٹیم میں ٹیکنوکریٹس نہیں سیاسی لوگ شامل کرنے چاہئیں۔بقول اقبالؒ

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔