ٹی ٹی پی سے مذاکرات اور ریفرنڈم کی تجویز

ریفرنڈم کوئی انہونا عمل نہیں بلکہ مہذب دنیا میں رائے جاننے کے لئے سب سے معتبر اور آئینی طریقہ سمجھا جاتا ہے۔دنیا کے بہت سے ممالک میں مختلف ایشوز پر رائے معلوم کرنے کا یہ طریقہ رائج ہے۔

جدید دنیا میں جمہوریت کی ماں سمجھے جانے والے ملک برطانیہ میں بریگزٹ کے معاملے پر جون 2016 میں ریفرنڈم ہوا۔ترکی میں صدارتی اختیارات کے معاملے پر اپریل 2017میں ریفرنڈم کرایا گیا۔روس میں راے شماری کے طریقہ کار میں تبدیلی کے معاملے پر 2020میں ریفرنڈم ہوا۔ سوئٹزرلینڈ میں حجاب کے ایشو پر عوامی رائے جاننے کیلئے 2021میں ریفرنڈم ہوا۔

اس تناظر میں ٹی ٹی پی اور حکومت کے مابین مذاکراتی عمل کے پس منظر میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مصطفی نواز نے ریفرنڈم کی تجویز دی۔ طالبان اور پاکستان کے مابین مذاکرات کی تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ریفرنڈم کی تجویز مناسب معلوم ہوتی ہے۔

کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے ساتھ یہ مذاکرات پہلی مرتبہ نہیں ہو رہے بلکہ اس سے قبل لگ بھگ ایک درجن مرتبہ مذاکرات کیے جا چکے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا پہلی مرتبہ اعتراف وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا۔گزشتہ دنوں قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد بتایا گیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی تین شرطیںtali رکھی گئی ہیں۔

1۔طالبان پاکستان کا آئین تسلیم کریں۔2۔مسلح گروہ اپنے ہتھیار پھینک دیں۔3۔تمام لوگ اپنے شناختی کارڈ بنوائیں یعنی اپنی شناخت ظاہر کریں۔جب کہ طالبان کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ان کے گرفتار رہنماؤں کو رہا کیا جائے،ان پر قائم مقدمات ختم کیے جائیں۔ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے فریقین کی جانب سے ایک ماہ کی فائر بندی کی گئی۔

9 نومبر سے 9 دسمبر نہ تو طالبان کوئی کارروائی کریں گے اور نہ ہی حکومت پاکستان کی جانب سے ان کے خلاف کوئی آپریشن کیا جائے گا۔قومی سلامتی کونسل کے اس اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں شہباز شریف نے ان مذاکرات کی مخالفت کی۔میاں شہباز شریف کی مخالفت نے سب کو چونکا دیا کیونکہ قبل ازیں مسلم لیگ ن کا موقف یہ نہیں رہا۔جبکہ پیپلز پارٹی کی محترمہ بے نظیر بھٹو اور پھر بلاول بھٹو زرداری اس حوالے سے پہلے دن سے ہی ایک واضح مؤقف رکھتے ہیں۔

میاں شہباز شریف کے اس مؤقف کی بدولت پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں قربتیں ایک مرتبہ پھر بڑھنے لگی ہیں۔ذرائع کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے اراکین کی تعداد 2000 سے 2500 تک ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر اس گروپ کا حصہ بنے، تحریک طالبان پاکستان کے تمام گروہ ان مذاکرات کا حصہ ہیں۔

اس کالعدم تنظیم کے ساتھ پہلے بڑے مذاکرات 2008 میں ہوئے جب پاکستان پیپلز پارٹی مرکز میں برسر اقتدار تھی جبکہ خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی اتحادی جماعت کی حیثیت سے برسر اقتدار تھی۔2008 میں ایک معاہدہ کیا گیا جس کے بعد حکومت نے مالاکنڈ میں فاٹا ریگولیشن کی جگہ شریعت ریگولیشن نافذ کیا۔تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد کو رہا کیا گیا۔لیکن جونہی صوفی محمد رہا ہوئے انہوں نے ایک طرف تو جمہوری نظام کو کفریہ نظام قرار دے دیا۔

پھر عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما کے گھر پر حملہ کر دیا گیا جس میں متعدد افراد شہید ہوئے اس معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد سوات میں فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا۔مذاکرات کا دوسرا بڑا دور مسلم لیگ نون کے دور میں ہوا 2013 میں شروع ہونے والے مذاکرات میں وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے قومی امور عرفان صدیقی کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی قائم کی گئی جس میں مولانا سمیع الحق،سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی،میجر عامر،اور رستم شاہ مہمند شامل تھے۔لیکن۔2014 میں ٹی ٹی پی نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کر دیا جس میں سینکڑوں معصوم بچے اپنی جانوں سے گئے جس پر حکومت نے ضرب عضب آپریشن شروع کر دیا اور مذاکرات ختم ہو گئے۔

اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے دلیرانہ فیصلہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کی سرکوبی کی۔جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج اور جملہ ریاستی اداروں نے یکجان ہوکر دہشت گردوں کا قلع قمع کردیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف کی قیادت میں پاک فوج کی جانب سے کیے جانے والے ضرب عضب آپریشن کے بعد ملک میں امن و امان کی صورتحال میں واضح تبدیلی دیکھنے کو ملی۔

اس آپریشن کی کامیابی نے یہ بھی واضح کر دیا کہ جب حکومت اور ریاستی ادارے ایک پیج پر ہوتے ہیں تو ان کی کامیابی کو روکنا ممکن نہیں ہوتا۔بعض دوست کالعدم تحریک طالبان اور تحریک لبیک سے مذاکرات میں مماثلت تلاش کر رہے ہیں حالانکہ دونوں میں نمایاں فرق ہے۔تحریک لبیک کے اکابرین محب وطن پاکستانی اور آئین پاکستان تسلیم کرنے والے لوگ ہیں۔قوم کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ 80 ہزار سے زائد افراد نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔

ان میں آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں کا خون بھی شامل ہے،سینکڑوں فوجی افسران نے بھی جام شہادت نوش کیا،پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی منصب شہادت پر فائز ہوئی۔ ایسے گروہ جن کے ہاتھوں پر خون کے دھبے ابھی تک موجود ہوں ان سے مذاکرات کرتے ہوئے قوم کو اعتماد میں لینا ازبس ضروری ہے۔اس وقت اگرچہ حکومت اور ادارے بظاہر ایک پیج پر نظر آرہے ہیں،شاید اسی اعتماد کی وجہ سے حکومت ان دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالے ہوئے ہے لیکن حکومت کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ کوئی بھی ایسا معاہدہ جو عوامی تائید سے محروم ہوگا اس کی کامیابی مشکوک ہوگی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔