پاکستان
Time 18 نومبر ، 2021

حکومت و ریاست انتہاپسندی سے لڑنے کیلئے مکمل طور پر تیار نہیں، فواد چوہدری

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ حکومت و ریاست انتہاپسندی سے لڑنے کیلئے مکمل طور پر تیار نہیں ہے، انتہا پسندی وہ بم ہے جو ٹِک ٹِک کررہا ہے ، جو ریاست قانون کا نفاذ نہں کرسکتی اس کے وجود پر سوال کھڑے ہوجاتے ہیں، ہمیں بھارت، امریکا اور یورپ سے نہیں اپنے آپ سے خطرہ ہے۔

ایک تقریب سے خطاب میں فواد چوہدری نے کہا کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کیس میں ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑا، انتہا پسندی کی بڑی وجہ مدارس نہیں، اسکولز ہیں، 90 کی دہائی میں اسکولز کالجز میں انتہا پسندی کی تعلیم دینے والے اساتذہ بھرتی کیے گئے، ہمیں یورپ و امریکا سے نہیں، اپنے آپ سے خطرہ ہے۔

اسلام آباد میں تقریب سے خطاب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ  انتہاپسندی ملک یا قوم کو تنہا اور تباہ کرسکتی ہے، سیاسی و خارجی وجوہات کی بنا پر صوفیا کی  زمین کو انتہا پسندی کی جانب بڑھنے دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارےہاں ایک ہی نظریے کے سوا دوسری سوچ  یا بات پر کفر کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے، اسلام توازن اور امن کی تعلیمات دیتا ہے، اسلامی تعلیمات یا کسی مذہب کی تعلیمات میں مسئلہ نہیں، ان کی تشریح میں مسئلہ ہوتا ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے پولیسنگ کا نظام بھی تباہ و برباد کیا، اس کا کوئی متبادل بھی نہیں، مقامی انتظامی نظام کو بھی تباہ وبرباد کردیا گیا، اگرآپ لوگوں کی زندگیوں کو بچا نہیں پائیں گے، سافٹ چینج کیسےآئےگی؟  حکومتی رٹ ختم ہوگی تو انتہا پسند حاوی ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک قانون کی حکمرانی یقینی نہیں بنائیں گے مثبت تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ مذاکرات وزیراعظم ہاؤس اور وزیر داخلہ کی سطح  پر نہیں ہوتے، تھانیدار مذاکرات کیا کرتا  تھا، تھانیدار کا انسٹی ٹیوشن ختم کردیا تو اس کے بعد اوپر کے عہدے ختم ہوگئے۔ 

انہوں نے کہا کہ لوگوں کی زندگیوں کو تب تک نہیں بچا سکتےجب تک قانون کا نفاذ نہیں کرتے، ریاست کا ایک ہی کام ہونا چاہیے وہ ہے قانون کا نفاذ، جو ریاست قانون کانفاذ نہیں کرسکتی اس کے وجود پرسوال آجائےگا، اس صورت میں آپ خانہ جنگی کی طرف جائیں گے، ریاست کا کنٹرول آپ کےاوپرسےختم ہوتاجائےگا، گروپس سامنے آجائیں گے جو ریاستی کنٹرول پر قبضہ کرلیں گے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ انتہا پسندی کا بیانیہ سوسائٹی نے خود ٹھیک کرنا ہے، مختلف نقطہ نظر ہوتےہیں، انتہاپسندانہ نقطہ نظربھی ہوتے ہیں، انتہاپسندانہ نقطہ نظر رکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، کوئی کہہ سکتا ہےکہ فلاں حکومت کےساتھ جنگ کرنی ہے، اسےآپ نہیں روک سکتے، لیکن اس کو  یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ  بندوقیں کلاشنکوفیں لے کر حکومت کے اوپر چڑھ پڑیں کہ آپ جنگ نہیں کرتے تو میں آپ سے جنگ کروں گا، نقطہ نظر رکھنا اور اسے نافذ کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ریاست کا ایک ہی کام ہےکہ وہ یقینی بنائےکہ رائٹ آف وائلنس کسی ایک گروپ کے پاس نہیں جائےگا، تاکہ سوسائٹی میں نقطہ نظر کا تنوع رہے، تنوع ہوگا تو انتہاپسندی نہیں ہوگی، آپ کا نقطہ نظر بھی آئے دوسرے، تیسرےکا نقطہ نظر بھی  آئےگا، آپ پر منحصر ہے کہ کس نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہیں کس سے اتفاق نہیں کرتے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ریاست کمزور ہو جائے اور شدت پسند گروپ تگڑے ہوجائیں اور وہ کہیں کہ آپ ہمارے نقطہ نظرکےعلاوہ کوئی او نقطہ نظرکہہ ہی نہیں سکتے تو یہاں مسئلہ پیدا ہوتا ہے،جب تک ہم قانون کا نفاذ یقینی نہیں بنائیں گے، ریاستی رٹ کو قائم نہیں کریں گے، انتہا پسندی کا کوئی سافٹ چینج  آنےکا کوئی چانس نہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں تحریک لبیک پاکستان نے پنجاب میں دھرنے اور مظاہرے شروع کردیے تھے اور اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد حکومت نے ان سے مذاکرات کیے اور ایک معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کی بنیاد پر تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کو آج رہا کردیا گیا ہے جبکہ سیکٹروں افراد پر قائم مقدمات واپس لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

مزید خبریں :