بلاگ
Time 02 دسمبر ، 2021

بے مثال تاریخ کی حامل پی پی پی

پاکستان پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جو آمریت کے خلاف مزاحمت کیلئے وجود میں آئی، 30نومبر 1967کو ایک نوجوان سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو شہید اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، کا منشور لے کر سیاست کے میدان میں آئے، انہوں نے سیاست کو محلات اور ڈرائنگ روم سے نکال کر غریبوں کے دروازوں پر لا کر کھڑا کیا۔

یہ تاریخی تبدیلی تھی کہ مدتوں سے سیاسی اور معاشی استحصال کے شکار کچلے ہوئے طبقات کو اپنی قوت کا ادراک ہوا، پاکستان پیپلز پارٹی اگرچہ ملٹی کلاس پارٹی تھی جس میں جاگیردار بھی شامل تھے، سرمایہ دار بھی، مزدور اور کسان بھی شامل تھے جبکہ نوجوان اور طالب علم بھی اُس کی طاقت بنے۔

یہ پہلا موقع تھا جب جاگیردار اور سرمایہ دار کچلے ہوئے طبقات کے سامنے جوابدہ تھے، جاگیردار کسانوں کے سامنے جبکہ سرمایہ دار مزدوروں کے سامنے۔

ذوالفقار علی بھٹو شہید نے 1967سے لے کر 1970تک یعنی تین سال کے اندر عوام کو سوچنے، بولنے اور سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ سکھا دیا، بڑے اور بزرگ کہتے ہیں کہ بھٹو کوئی ولی تھا یا نہیں مگر اللہ تعالیٰ کا کوئی خاص بندہ ضرور تھا، جس نے انتہائی مختصر مدت میں اپنی سحر انگیز شخصیت کے ذریعے تین سال کے اندر کرشماتی انداز میں ایسا انقلاب برپا کردیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

اگر ہم پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی ملک اور عوام کے لیے خدمات کا ذکر کرنا شروع کریں تو اَن گنت کتابیں لکھی جا سکتی ہیں مگر مختصر سی بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو جو شعور دیا تھا، اس شعور کو طاقت کے ذریعے کچلنے میں آمر جنرل ضیاء کو 11سال لگ گئے مگر وہ اپنے عزائم میں بری طرح ناکام رہے۔

جنرل ضیاء نے جیالوں کو پھانسیاں بھی دیں، کوڑے بھی مارے اور ان کے جوانی کے خوبصورت دن قید خانوں کی نذر کردیے۔

محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے قید خانے کو اپنا گھر بنا لیا، اس نہتی لڑکی نے بہادری اور حوصلے سے طاقتور آمروں کے حوصلے پست کر دیے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے آمروں کے مقابل مزاحمت بھی کی اور ان کی باقیات کا بھی مقابلہ کیا۔

جب سارے حربے ناکام ہو گئے تو اُنہیں شہید کر دیا گیا، کیا یہ محض اتفاق ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل پنڈی میں ہوتا ہے، محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو بھی پنڈی میں سرعام شہید کیا جاتا ہے اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے سیاسی جانشین جناب آصف علی زرداری کے خلاف ٹرائل بھی پنڈی میں ہو رہا ہے؟

اگر پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت سے بغض، تعصب اور نفرت کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو غریب دوستی اور پیپلز پارٹی کا منشور اس کی قیادت کا ناقابلِ معافی جرم نظر آئے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت آئین کی حکمرانی، بااختیار پارلیمنٹ اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں کے اصولوں پر سودے بازی کرنے کیلئے نہ تیار تھی، نہ تیار ہے اور نہ ہی کبھی اور کسی بھی قیمت پر تیار ہوگی، کسی کو یاد ہو یا نہ یاد ہو مگر آج بھی وہ لوگ زندہ ہیں جن کو ذوالفقار علی بھٹو شہید کا وہ خطاب یاد ہے جس میں ذوالفقار علی بھٹو شہید نے فرمایا تھا کہ ’’میں اِس ملک اور عوام پر اپنی، اپنے بیٹوں اور بیٹی کی جان قربان کرنے سے گریز نہیں کروں گا‘‘، وقت نے یہ ثابت بھی کیا۔

بھٹو شہید کا وعدہ سچا تھا، محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے زندگی بھر 1973کے آئین کی اصل صورت میں بحالی اور بااختیار پارلیمنٹ کیلئے جدوجہد کی وہ وطن پرست لیڈر تھیں۔ وہ سوات سے پاکستان کا پرچم اتارنے والے دہشت گردوں کو شکست دینے کیلئے وطن واپس آئیں اور وطن دشمنوں کی طرف سے بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں کی کوئی پروا نہیں کی۔

لوگ تو جان بچانے کی خاطر ملک چھوڑ جاتے ہیں مگر پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت ملک بچانے کیلئے اپنی جان قربان کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے، کچھ سیاسی شعور سے عاری لوگ یہ کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی قیادت صرف ایک خاندان کے پاس ہے، میں چیلنج کرتی ہوں کہ بھٹو خاندان جیسی بہادری اور قربانی کی تاریخ کے مقابلے میں کوئی ایک مثال تو پیش کریں۔ چلیں ملک اور عوام کی خدمت کیلئے پیپلز پارٹی کی حکومتوں اور دیگر حکومتوں کا موازنہ کرنے کی ہی زحمت کرلیں۔

پیپلزپارٹی کی قیادت نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا، پیپلز پارٹی کی قیادت نے ملک کو میزائل ٹیکنالوجی دی، سمندری حدود کی حفاظت کرنے کیلئے اگوسٹا سب میرین دی، مگر میرا معصومانہ سوال یہ ہے کہ گملوں میں اگائے گئے حکمرانوں نے کیا کوئی کارنامہ انجام دیا ہے اگر دیا ہے تو برائے مہربانی قوم کو ضرور آگاہ کیا جائے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی ایک کارکن کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو شہید کی فلاسفی کہ سیاسی جنت عوام کے قدموں میں ہے پر یقین رکھتی ہوں۔

ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے جانشین چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں، ہم احسان مند ہیں جناب آصف علی زرداری کے جنہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو کاجانشین بننے کیلئے تپتی آگ کے راستوں پر چلنا پڑتا ہے اپنے اکلوتے صاحبزادے کو اس راستے پر گامزن کردیا ہے۔

اگرچہ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری کو عملی سیاست میں قدم رکھے تین سال ہو رہے ہیں مگر انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت سے سینئر ترین سیاستدانوں کو مات دے دی ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں ایک بار پھر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید واپس آچکے ہیں اور محترمہ بےنظیر بھٹو شہید بھی، بھٹو اور عوام کے درمیان رومانس آج کے عہد میں داخل ہو چکا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کا وہی منشور ہے جو ان کے نانا کا تھا، عجب منظر ہے کہ شہید قائدعوام نے عوام کو سوچنے کیلئے شعور، بولنے کیلئے زبان دی تھی۔

وہ ترقی کی منزلیں طے کر چکے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتی ہے۔ یہی تو سوشل میڈیا کی صورت میں سامنے آ رہا ہے، پاکستان پیپلزپارٹی کا یہی منشور ہے، بے شک طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔

(کالم نگار سیکریٹری اطلاعات پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔