زہریلا بھارتی پروپیگنڈہ اور پاکستان

(گزشتہ سے پیوستہ)

آج بھارت خود ووٹ کی طاقت سے اپنے سر پر سجا دنیا کی سب سے بڑی ’’جمہوری سیکولر ترقی پذیر جمہویت‘‘ کا تاج اتار کر ’’ہندو توا‘‘ کی فلاسفی کی پیروی میں ببانگ دہل خود کو بنیاد پرست ہندو نظریاتی ریاست بنانے کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔

 لیکن ’’بڑی منڈی ‘‘ اور ’’اسٹرٹیجکل پارٹنر‘‘ کی بھارتی حیثیت نے اسے سیکولر اور جمہوریت ہی کے انسانیت سے متصادم ہونے کے باوجود، اصلی اور جانی مانی جمہوری دنیا کے لیے بھی قابلِ قبول بنایا ہوا ہے،وگرنہ آسام میں جبراً بے دخل کی گئی مسلم بستی کے بھاگتے جو ان کو باوردی سیکورٹی کے اہلکاروں کا گھیر کر قابوکرکے لنچنگ کرکے مار دینا اور پھر ساتھ لے جائے گئے۔

 ویڈیو شوٹر کے لاش پر کودنے کی فوٹیج وائرل ہونے کے بعد (جبکہ باوردی آر ایس ایس کی ایسی ہولناک مسلم دشمن کارروائیاں سینکڑوں کی تعداد میں ہو رہی ہوں) بھارت کو ریاستی دہشت گرد ملک ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ؟ کیا مقبوضہ کشمیر کے محلے میں نانا کے ساتھ بازار جانے و الے 5سالہ نواسے کی نانا کی لاش پر بیٹھ کر رونےکی ہولناک وائرل وڈیو اور اس کے قریب کھڑے باوردی سیکورٹی اہلکاروں کا ہنسی ٹھٹھا، ’’دہشت گردی‘‘ کی بین الاقوامی تعریف کرانے اور اس میں ریاستی دہشت گردی کو بھی شامل کروانے کا سوال دنیا بھر میں (حکومتوں کو چھوڑیے) پورے عالمی معاشرے کے سامنے سستی ترین اور مکمل موجود کمیونیکیشن ٹیکنالوجی سے فل سکیل فری کوئنسی سے ہر زبان میں اٹھانا آسان ترین اور ہمارے مکمل بس میں نہیں ؟ ہمارا جواب ’’نہیں ‘‘ ہی معلوم دیتا ہے جبکہ متذکرہ انسانیت سوز واقعات مقبوضہ کشمیر میں 5اگست 2019ء کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں ہوگئے۔

 اور ایسا کتنا کچھ بھارت میں قابل رپورٹ ہو رہا ہے جو عالمی معاشرے کےلیے ان رپورٹیڈ ہے، سفارتخانے جو تفصیلی رپورٹس اپنی حکومتوں کو بھیجتے ہیں وہ سب خفیہ (کانفیڈنشل) ہوتی ہیں۔ سو یہ ہے بھارت کی صورتحال اور اس پر ابلاغ کا حال، اس کے مقابل پاکستان پر ابلاغی جارحیت 50سال قبل مشرقی پاکستان پر کھلی جارحیت سے تادم جاری ہے جس کی تازہ ترین مثالیں یورپی یونین کی انفولیب سے بھارت کے پاکستان کے خلاف مکمل بے بنیاد اور جعلسازی سے ہونے والے دنیا بھر میں دس سالہ پروپیگنڈے کی تصدیق ہے پھر وادی پنج شیر کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے طالبان کی معاونت کے لیے پاک فضائیہ کے حملوں کی معاونت کی بھارتی حکومتی لاڈلے مین اسٹریم میڈیا پر چلائی گئی جعلی فوٹیج کا استعمال، جسے ہمارے دوست چین نے بے نقاب کیا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان نے بھارت کی اس انتہائی پاکستان مخالف عالمی سطح کی دروغ گوئی کو بھارت پر جوابی ’’حملے‘‘ کے لیے کتنا اور کہاں استعمال کیا؟

حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ایٹمی طاقت تو بن گئے الحمدللّٰہ آج ہماری ارضی،بحری اور فضائی سرحدیں تمام تر بھارتی مذموم عزائم سے محفوظ ہیںلیکن یہ بھی واضح ہے کہ بھارت اور پاکستان کی بھی ہر حکومت کے دور میں پاکستان پر بھارت کے ابلاغی حملوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

یاد رہے ملکی سلامتی کے حوالے سے ہر تین طرح کی سرحدوں (ارضی، بحری اور فضائی) کے محفوط ہونے کا اب یہ مطلب نہیں کہ ملکی دفاع یقینی ہوگیا ہے۔ پاکستان پر تو حملے دو عشروں سے اندرون ملک بیرونی ریاستی دہشت گردی کے ہو رہے تھے یا کمیونیکیشن وار والے، ابلاغی، موخرالذکر بدستور جاری ہیں۔ اس سے ہمارے عالمی امیج کو تباہ کیا گیا۔ پاکستان پر پابندیاں لگوانے، انہیں جاری رکھنے اور داخلی تقسیم و انتشار کے اہداف حاصل کئے گئے اور کئے جا رہے ہیں۔ 

پاکستان کے جاری بحران بشکل سیاسی، اقتصادی عدم استحکام اور قومیت کے مقابل علاقائیت کے پھیلائو میں ہمارے اپنے سیاسی ڈیزاسٹرز اور سماجی، سیاسی دھماچوکڑی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہم خود بھی داغدار تو ہیں، مختصراً پہلی قسط میں واضح کیا کہ کیسے؟ جس کا فائدہ اٹھانے میں ہمارے بیرونی دشمنوں کو مہارت ہے۔ اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہم خود اپنے ہی لیے بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ لیکن یہاں زیر بحث بیرونی پاکستان مخالف پروپیگنڈا ہی ہے۔ اس حوالے سے جن کے خلاف فردِ جرم عائد ہونے کے تمام ثبوت موجود ہیں وہ باآسانی اپنی پاکستان مخالف مہم جوئی سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکے، اتنا کہ اس کا صحیح احاطہ بھی محال ہے۔ بھارت کی پاکستان دشمنی کا یہ سلسلہ پچھلی تمام حکومتوں کی طرح جاری ہے۔

ماہِ رواں میں پاکستان کہ دو لخت ہوئے اور بنگلہ دیش بنے نصف صدی بیت گئی۔ ان پانچ عشروں میں بھارت کو جب اور جتنا موقع ملا نئی دہلی حکومت اور بھارتی میڈیا نے اسے ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لیے داخلی انتہائی تشویشناک صورت حال میں براہ راست فوجی جارحیت سے پہلے اور ڈھاکہ فال کے بعد دنیا بھر میں جتنا مبالغہ آمیز اور بے بنیاد ’’قتل عام‘‘ اور دوسرے ہیومن ڈیزاسٹرز کا پروپیگنڈا ہوا اس کی اصلیت بالآخر اب بے نقاب ہونے لگی ہے اور اس کے ساتھ اور بہت کچھ جیسے آل انڈیا کانگریس کے مشہور باغی لیڈر سبھاش چندرا بوس کی پوتی، ہارورڈ سے پی ایچ ڈی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے سنٹر فار انٹرنیشنل سٹڈیز کی سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ سرمیلا بوس کی بنگلہ دیش/ مشرقی پاکستان میں ہونے والے قتل عام اور وسیع پیمانے پر گینگ ریپ کے المیوں پر کی گئی فیلڈ ریسرچ کو مختلف حربوں سے متنازعہ بنانے کی کوششیں اب تک جاری ہیں۔ یہ تحقیق DEAD RECKONING MEMORIES OF THE 1971 BANGLADESH WARکے ٹائٹل سے آکسفورڈ یونیورسٹی نے شائع کی جس میں بھارتی اور بنگلہ دیش کی مخصوص سیاسی جماعت اور حکومت کا مدتوں ہوا پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کافور ہوگیا۔ 

ڈاکٹر سرمیلا نے ان تمام مقامات کا تفصیلی دورہ کرکے ’’قتل عام‘‘ اور ’’گینگ ریپ‘‘ کے شرمناک المیوں کی پروپیگنڈے سے گھڑی گئی متھ کی پڑتال سائنٹفک ریسرچ میتھڈ استعمال کرکے امپریکل ڈیٹا کی بنیاد پر کی۔ پہلے تو 2011 میں کتاب کے منظر عام پر آتے ہی بھارت میں اس کی سیل پر پابندی لگا دی گئی، ردعمل میں انٹرنیٹ پر علمی حلقوں میں چرچا ہوا تو گھٹیا انداز میں ریسرچ میتھڈ کو متنازعہ کرکے ہاروڈ اور آکسفورڈ کی اسکالر کے تحقیقی کام کو چیلنج کیا گیا۔ اب ان کے دادا جو گاندھی اور نہرو سے اختلاف کے بعد جان خطرے میں پڑنے پر پراسرار طور پر غائب ہوگئے تھے۔ 

اب ان کی موت کا راز بھی کھل گیا اور گمشدہ ریکارڈ کے ساتھ بہت کچھ مل گیا ہے۔ بوس فیملی نے اپنے بزرگ کے غائب ہو جانے کا پیچھا نہ چھوڑا۔ ڈاکٹر سرمیلا کی والدہ بھی انڈین پارلیمنٹ کی رکن ہیں۔ اب بھارتی سیاست میں بھی کانگریس کی برہمنی ذہنیت کا پردہ چاک کرنے والا ریکارڈ بھارت کے نیشنل آرکائیو میں آگیا ہے۔ اس کے بوکس نمبر 26 میں کانگریس لیڈر شپ کا پردہ چاک ہوتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی تو اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرلیتی ہے۔ سوال یہ کہ پاکستان نے بھی اپنے خلاف زہریلے اور انتہا کے مبالغے پرمبنی پروپیگنڈے سے لگے داغ دھونے کے لیے کچھ کیا؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔