بلاگ
Time 31 دسمبر ، 2021

ہر سال مناتے تو ہیں قائد کے لئے دِن

’فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچو، لیکن فیصلہ کر لینے کے بعد اس پر ڈٹ جاؤ‘‘، یہ اُس عظیم انسان کے الفاظ ہیں جنہوں نے دنیا کے نقشے پر پاکستان کو جگہ دلوائی۔ آئیے آنے والے برس میں ہم قائد کے ایک غیرمعمولی قوم بنانے کے وژن پر عمل کا آغاز کریں۔

محمد علی جناح کی کہانی 1876میں کراچی سے شروع ہوتی ہے۔ سونے کا چمچ رکھنے کے باوجود وہ قائدانہ روش اور محنت کے عادی رہے۔ اس نوجوان کا نام ابتدا میں محمد علی جناح بھائی رکھا گیا تھا، لیکن 1894میں انگلینڈ میں حصولِ تعلیم کے لیے جا کر، انہوں نے اپنی دستاویزات سے ’’بھائی‘‘ کا لفظ نکال دیا۔

 بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ انگلینڈ میں، محترم جناح نے دراصل اداکاری اور تھیٹر میں کیریئر بنانے کی کوشش کی۔ بعد میں انہیں احساس ہوا کہ وہ اس فیلڈ کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ اس وقت سے، قائد نے اپنی زندگی قانون اور انصاف کے لیے وقف کردی۔

قائدِاعظم محمد علی جناح انگلینڈ سے قانون کی ڈگری مکمل کرنے والے اس وقت تک سب سے کم عمر ہندوستانی تھے۔ لنکنز اِن سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد، محترم جناح برطانوی قانون اور فقہی اصولوں کے ماہر ترین وکیل کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے ہندوستان میں بھی اپنی یہی منفرد اور الگ پہچان قائم رکھی۔

آج، جیسے جیسے ذرائع مواصلات اور ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا سمٹ رہی ہے، مختلف رنگ، طبقے اور مسلک کے لوگوں میں تفریق بڑھتی جارہی ہے۔ قائداعظم کے کردار پر تنقید کرنے والے انہیں ہندوستان کو تقسیم کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ تقسیم کے حوالے سے ان کے متعلق جھوٹے فلسفے گھڑے گئے۔

 اس کے برعکس، قائد کو کافی دیر میں یہ انتہائی تکلیف دہ احساس ہوا کہ ہندو اور مسلمان حکمرانی کی مشترکہ شرائط پر اتفاق نہیں کر سکتے۔ انگریز وں کا اکثریتی ہندوؤں اور ان کے رہنماؤں کی طرف جھکاؤ تھا چنانچہ مسلمانوں کودانستہ طور پر پسماندہ رکھا گیا۔ 1937میں کانگریس کے ہاتھوں ہونے والے المناک واقعات کے بعد قائد نے ہندو مسلم اتحاد کے نعرے سے دستبردار ہوتے ہوئے پاکستان کے قیام کا مطالبہ کردیا۔

قائداعظم کے سیاسی فلسفے کی بنیاد ’’دو قومی نظریہ‘‘ تھا، ہاف بیکڈ لبرل نظریات رکھنے والے بہت سے دانشوروں نے قیام پاکستان پر سوال اٹھائے۔ یہاں تک کہ بعض نے بنگلہ دیش کی تخلیق کو دو قومی نظریے کے خلاف استدلال کے طور پر بھی استعمال کیا، ایک طرح سے یہ بھی کہا گیا کہ اگر مسلمان الگ قوم ہیں، تو برصغیر میں تین الگ الگ مسلم قومیں یعنی پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں کیوں آباد ہیں؟

 جو لوگ اس کی نشاندہی کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جغرافیائی حدود کسی قوم کی حیثیت سے انکار نہیں کرتیں۔ برصغیر کے مسلمان، یہاں تک کہ اگر تین الگ الگ سرحدوں میں عقائد، روایات اور اقدار کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہیں تو یہ ان کے ایک قوم ہونے کی دلیل ہے۔ قائداعظم نے نہ صرف ایک علیحدہ قوم کے طور پر مسلمانوں کے نظریے کا دفاع کیا بلکہ اس نظریہ کو ایک سیاسی حقیقت میں تبدیل کردیا جو دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔

محمد علی جناح ہندوستان کے عظیم قانون دان اور مدبر تھے ، جوہندو مسلم اتحاد کے سفیر، ایک عظیم آئین ساز، ممتاز پارلیمنٹیرین، ایک اعلیٰ درجے کے سیاستدان، ناقابلِ تسخیر آزادی کے مجاہد، متحرک مسلم لیڈر، ایک سیاسی دانا اور جدید دور کے سب سے بڑے قوم سازوں میں سے ایک تھے۔

 قائداعظم نے مظلوم اقلیت کو ایک مضبوط سیاسی قوت میں بدل دیا۔ وہ اپنے زمانے کے مسلمانوں اور ان کی آنے والی نسلوں کے حقوق کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے ایک ایسا معاشرتی شعور بیدار کیا جو حقوق کی پامالی کی وجہ سے کھو گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں جن کی اپنی مخصوص ثقافت، تہذیب، زبان و ادب، آرٹ، فنِ تعمیر، نام، شناخت، اقدار، قوانین، اخلاقی ضابطے، رواج، تاریخ، روایت، قابلیت اور عزائم حتیٰ کہ زندگی اور زندگی کے بارے میں مخصوص نظریات تک مختلف ہیں۔

 بین الاقوامی قانون کے تمام اصولوں کے مطابق، ہم ایک قوم ہیں۔ چونکہ موجودہ دور ایک نئے پاکستان کی تشکیل کی جانب گامزن ہے ، ملک کومختلف چیلنجوں سے دوچار کر دیا گیا ہے اندرونی اور بیرونی نئے نظریات کو مواقع دیے جا رہے ہیں،لیکن شاید ہمیں قائدِاعظم محمد علی جناح کے نظریات سے ہی رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

 ہو سکتا ہے، جواب اسی کے اندر ہو اس کے بغیر ممکن ہی نہ ہو، جو راستہ ہم اپنی نجات کا سمجھ رہے ہیں وہ کسی نئے منشور میں نہیں بلکہ بانِی پاکستان کے خیالات سے رجوع کرنے سے ملے۔ جب ہم 25دسمبر کو قائد ڈے کے طور پر مناتے ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم نے سفر کہاں سے شروع کیا تھا اور قائد آج ہم سب سے کیا چاہتے ہیں۔

(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔