فیس بک نے فیس بک اور دیگر ویب سائٹس تک مفت رسائی فراہم کرنے کے لیے پاکستان، انڈونیشیا اور فلپائن جیسے ترقی پذیر ممالک میں ٹیلی کام کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کر رکھی ہے لیکن فیس بک کی اندرونی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے بہت سے صارفین کو ان سروس کے عوض چارج کیا جا رہا ہے جو کہ مجموعی طور پر لاکھوں ڈالرز ماہانہ ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق فیس بک کے سافٹ ویئر میں خرابی کی وجہ سے سیلولر نیٹ ورک صارفین سے ڈیٹا چاجرز لیے جا رہے ہیں اور اندرونی دستاویزات میں، فیس بک کے ملازمین تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک مسئلہ ہے۔
فیس بک کے ایک ملازم نے اکتوبر میں کمپنی کو لکھا کہ لوگوں سے ایسی سروسز کے پیسے لینا جو دراصل مفت ہیں "ہمارے شفافیت کے اصول کی خلاف ورزی ہے" ۔
فری بیسکس کہلانے والی سروس میٹا کنیکٹیویٹی کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ صارفین کو "مواصلاتی ٹولز، صحت کی معلومات، تعلیمی وسائل اور دیگر کم بینڈوتھ خدمات تک مفت رسائی فراہم کرتی ہے"۔
یہ سروس 2013 سے دستیاب ہے اور اکتوبر 2021تک، دنیا بھر میں اس سے 30 کروڑ سے زیادہ لوگوں نے استفادہ کیا۔
فیس بک دستاویز کے مطابق جولائی 2021 کو ختم ہونے والے سال میں،دو درجن کے قریب زیادہ ممالک میں سیلولر کیریئرز کی جانب سے فیس بک کے فری ڈیٹا پروڈکٹس کے صارفین پر لگنے والے چارجز ایک اندازے کے مطابق 7.8 ملین ڈالر ماہانہ تھے ۔
اندرونی دستاویز کے مطابق سروسز فری ہونے کے باوجود پاکستان میں صارفین سےہر ماہ 1.9 ملین ڈالر وصول کیے جو کہ کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق فیس بک اس مسئلے سے واقف تھا اور مہینوں تک اسے درست کرنے میں ناکام رہا اور مفت موڈ میں ایپس استعمال کرنے والے صارفین کو ڈیٹا استعمال کرنے کے لیے مقامی سیلولر کیریئرز کی جانب سے غیر متوقع طور پر چارج کیا جا رہا ہے۔
اور چونکہ زیادہ تر صارفین پری پیڈ سروس استعمال کرتے ہیں اس لیے جب تک ان کا بیلنس ختم نہیں ہو جاتا انہیں اس کٹوتی کا ادراک نہیں ہوتا۔
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں صارفین سے فیس بک کا مفت انٹرنیٹ استعمال کرنے پر مجموعی طور پر 1.9 ملین ڈالر (33 کروڑ 53 لاکھ روپے سے زیادہ) ہر ماہ وصول کیے گئے ہیں۔
وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق مسئلے کی جڑ فیس بک کے سافٹ ویئر اور یوزر انٹرفیس (UI) میں خرابی ہے۔
میٹا (فیس بک) کے ترجمان کے مطابق ویڈیو کو فری بیسکس کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے تاہم ہمیں شکایات موصول ہوئی ہیں ہم نے ان پر تحقیقات بھی کی ہیں اور فیس بک کے سافٹ ویئر میں موجود خامیوں کو درست کرنے کی کوشش کی ۔
دستاویزات میں تکنیکی مسئلے کو اس کی جڑ قرار دیا گیا ہے اور زیادہ تر ویڈیوز سے ہی صارفین کا بیلنس کٹتا ہے۔ دستاویز بتاتی ہیں کہ تقریباً 83 فیصد چارجز ویڈیوز پر ہی وصول ہوئے جو کہ فیس بک سافٹ ویئر میں خرابی کی وجہ صارفین کو نظر آتی ہیں۔
دی وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق اس کے پاس موجود فیس بک دستاویزات 2021 کے خزاں میں لکھی گئی تھیں اور یہ فیس بک کے سابق پروڈکٹ مینیجر، وسل بلور فرانسس ہوگن کی جانب سے عام کی گئی معلومات کا حصہ نہیں ہیں۔
فیس بک اس مسئلے کو "لیکیج" کہتا ہے، کیونکہ یہ مفت ایپس اور سروسز میں لیک ہو رہی ہیں۔ اپنی دستاویزات میں فیس بک اس لیکیج کے بارے میں وضاحت اس طرح کرتا ہے، "جب صارفین فری موڈ میں ہوتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جو ڈیٹا وہ استعمال کر رہے ہیں وہ ان کے کیریئر نیٹ ورکس کے ذریعے کور کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ صارفین اصل میں خود ڈیٹا کی ادائیگی کر رہے ہیں۔"
فیس بک کا کہنا ہے کہ اس نے زیادہ تر حصے کے لیے مسئلہ حل کر دیا ہے۔ میٹا کے ترجمان ڈریو پیسیٹیری نے دی ورج کو بتایا: "ہم لوگوں کو بتاتے ہیں کہ جب وہ سائن اپ کرتے ہیں تو تصاویر اور ویڈیوز دیکھنے پر ڈیٹا چارجز لگیں گے اور ہم لوگوں کو یاد دلانے کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ انہیں دیکھنے سے ڈیٹا چارجز لگ سکتے ہیں۔"
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق، ترقی یافتہ منڈیوں میں فیس بک کی ترقی بڑی حد تک رک گئی ہے اور صرف کم کنیکٹیویٹی والے ممالک میں بڑھ رہی ہے۔ فیس بک ان ممالک میں نہ صرف ایک سوشل سائٹ کے طور پر بلکہ انٹرنیٹ فراہم کرنے والے کے طور پر بھی کام کر رہا ہے۔ اس نے ان تمام ممالک میں اپنا وائی فائی متعارف کرایا ہے اور فیس بک ڈسکوور بھی متعارف کرایا ہے، یہ فیچر فری بیسک کی طرح ہے، جو ہر روز محدود مفت ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔