14 فروری ، 2022
میاں چنوں میں گزشتہ دنوں پیش آنے والے واقعے پر ارکان سینیٹ نے برہمی کا اظہا رکیا ہے۔
سینیٹرز کا کہنا تھا کہ کیفرِ کردار تک پہنچائیں گے ، نشانِ عبرت بنائیں گے ، یہ باتیں برسوں سے سن رہے ہیں ، آج ہم بھارت کی نڈر بیٹی مسکان کی بات کرتے ہیں ، ہمارا سر ندامت سے جھک جاتا ہے کہ ہمارا حال بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں۔
سینیٹرز نے سوال اٹھایا کہ کیا ایسے واقعات پر دکھ کا اظہار کرلینا کافی ہے؟ یہ معاشرہ ذہنی مریض ہوگیا ہے ، مثبت اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
میاں چنوں میں ہجوم کے ہاتھوں ایک شخص کے قتل پر اراکین سینیٹ نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کو انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی بھیجنے اور خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا مطالبہ کردیا۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ لوگ اپنی نجی عدالت لگا لیتے ہیں، ایسی بربریت بھارت میں ہو رہی ہوگی، پاکستان میں اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ہمیں جب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) میں بٹھایا جاتا ہے تو ہمارا چہرہ ایسے واقعات کے بعد زیادہ تاب ناک نہیں رہتا۔
قائد ایوان شہزاد وسیم نے کہا کہ ہمارے ہمسائے میں ریاست ایسا کررہی ہے اور ہمارے ملک میں ریاست اس کے خلاف لڑ رہی ہے ، حکومت اس کے خلاف سخت سے سخت اقدامات کرے گی۔
خانیوال کی تحصیل میاں چنوں میں ہجوم کے ہاتھوں ایک شخص کے قتل کے مقدمے میں پولیس کی مختلف علاقوں میں کارروائیاں جاری ہیں اور اب تک 128 افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔
خیال رہے کہ میاں چنوں میں دو روز قبل ہجوم نے توہین مذہب کاالزام لگاکرایک شخص کو قتل کر دیا تھا جس کے بعد 33 نامزد اور 300 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
مقدمہ ایس ایچ او تھانہ تلمبہ کی مدعیت میں درج کیا گیا ہےجس میں قتل اور دہشتگردی کی دفعات شامل ہیں ۔
خانیوال کے علاقے میاں چنوں میں توہینِ مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے ذہنی معذور شخص مشتاق کے بھائی کا کہنا ہےکہ ان کا بھائی16،17 سال سے ذہنی طور پر مفلوج تھا اور ملتان کے ایک ڈاکٹر سے اس کا علاج ہو رہا تھا۔
جیو نیوز کے پروگرام 'نیا پاکستان' میں بات چیت کرتے ہوئے مقتول مشتاق احمد کے بھائی رانا ذوالفقار کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی کو رسیوں سے باندھ کر تشدد کیا گیا، اس کے ہاتھوں کی انگلیاں کاٹی گئیں، اس کے مرنے کے بعد بھی لاش کو مارتے رہے۔