باخبر پاکستانی اور پسندیدہ تبصرے

یہ نہیں معلوم کہ دیگر ممالک میں بھی یہی حال ہے یا صرف وطنِ عزیز کو ہی یہ طرۂ امتیاز حاصل ہے کہ ہر ایک پاکستانی ہر معاملے کی مکمل خبر رکھتا ہے۔ آپ کسی ریڑھی والے سے بھی پوچھ لیں وہ آپ کو تازہ ترین خبروں سے آگاہ کر دے گا۔ اسی طرح ہر پاکستانی ’’دانشور‘‘ ہے۔ حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

 ٹی وی چینلز پر بھی بعض تبصرہ نگار ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال پر نہ صرف سیر حاصل تبصرے کرتے نظر آتے ہیں بلکہ پوشیدہ خبروں سے بھی آگاہ ہوتے ہیں۔ من پسند تبصروں اور افواہوں پر مبنی خبروں کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوششوں کا فروغ ایک خطرناک اور نقصان دہ رجحان ہے۔ 

تبصرہ نگاروں اور کالم نویسوں کا اصل کام اور ذمہ داری قوم کی ترجمانی اور اصلاح کے ساتھ ساتھ منفی سوچ اور تاثرات کا خاتمہ کرنا ہے، نہ کہ کسی مخصوص جماعت کی ترجمانی یا غلط فہمیاں پیدا کی جائیں۔ اور نہ افواہوں کو معلومات اور خبروں کی شکل دے کر بدگمانیاں پھیلائی جائیں۔ جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے تو یہ شعبہ تو مادر پدر آزاد ہے۔ 

سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی معاملات کے بارے میں من گھڑت افواہوں، گالم گلوچ اور منافرت پھیلانے کے لیے ماہرین رکھے گئے ہیں جن میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں بطور خاص پیش پیش ہیں۔ ان جماعتوں نے افواہوں اور گالم گلوچ کو آگےپھیلانے کے لیے ’’ماہر‘‘ اور ’’پیشہ ور‘‘ لوگ رکھے ہوئےہیں۔

 ان سوشل میڈیا ٹیموں میں بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے وابستہ یا ان کے دلدادہ وہ رضا کار بھی شامل ہیں جو محض ذاتی دلچسپی اور جذبات کی وجہ سے ان تنخواہ دار اور مراعات یافتہ ٹیموں کا مفت میں ہاتھ بٹاتے ہیں اور ان کی پھیلائی ہوئی من گھڑت خبروں اور افواہوں کو آگے پھیلانے کا کام سرانجام دیتے ہیں۔

 ان میں ہر عمر کے مرد و خواتین شامل ہیں لیکن اکثریت ان نوجوانوں کی ہے جو بے روزگار ہیں یا معمولی ملازمت اور کام کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ دیگر میں ریٹائرڈ مرد اور وہ فارغ البال خواتین شامل ہیں جن کا گھر داری سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔سوشل میڈیا کا بے لگام اوربد مست گھوڑا سر پٹ دوڑتا جارہا ہے۔ جھوٹی اطلاعات، من گھڑت خبروں کے پھیلاؤ کے علاوہ پگڑیاں اچھالنے اور گالی گلوچ کے لیے اس شعبہ میں نہ کوئی حدود و قیود ہیں نہ ہی کوئی اصول ہیں۔ کالم نگاری درحقیقت ایک مشکل کام ہے لیکن سب سے مشکل وہ قواعد ہیں جن کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہر لفظ کو اس پیمانے پر پورا اور اس دائرہ کے اندر رہتے ہوئے تحریر کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح پرنٹ ہو یا الیکٹرانک میڈیا میں رپورٹنگ بھی نہایت حساس شعبہ ہے۔ لیکن سوشل میڈیا تمام پابندیوں سے آزاد ہے۔

یہاں تک کے بعض شخصیات کے انتقال کی جھوٹی خبریں پھیلانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ گزشتہ روز مسلم لیگ (ق) کے سینئر سیاستدان کے انتقال کی خبر بھی پھیلائی گئی جو سراسر جھوٹ پر مبنی تھی۔ سیاسی اور بعض مذہبی جماعتوں کی سوشل میڈیائی ٹیمیں اور انکے بعض جذباتی کارکن بھی اکثر اخلاقی و سماجی حدود کو پار کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت کے بیرونِ ملک مقیم کارکن تو بداخلاقی کی تمام حدیں نہ صرف سوشل میڈیا پر بلکہ عملی مظاہروں کی صورت میں پار کرجاتے ہیں۔ 

اس جماعت کے بیرون ملک مقیم یہ بے خبر کارکن محض قیادت کے کہنے یا اکسانے پر اپنے ساتھ ساتھ اپنے وطن کی بھی بے عزتی کرانے کو فریضہ سمجھ کر سرانجام دیتے ہیں۔ ان میں اکثریت کو پاکستان کے جغرافیے کا بھی علم نہیں ہوتا تو یہاں کی حقیقتِ حال کا کیا علم بلکہ اکثر تو بیرون ممالک میں پیدا ہوکر جوان ہوتے ہیں اور اکثر کو یہاں کی قومی زبان بھی نہیں آتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارا سرمایہ ہے وہ سب ہمارے بہن بھائی ہیں۔ 

اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ وہ اپنی محنت سے کمایا ہوا بھاری سرمایہ تقریباً ہر ماہ پاکستان بھیجتے ہیں لیکن یہ بھی تو کھلی حقیقت ہے کہ وہ یہ سرمایہ ملک کے خزانے میں نہیں بلکہ یہاں رہنے والے اپنے گھر والوں کو بھیجتے ہیں تاکہ ان کی کفالت کرسکیں۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ان کے بھیجے گئے سرمائے سے فائدہ ملک کو ہی پہنچتا ہے۔

 اور یہ معاشیات کے بنیادی اصولوں میں اہم عنصر ہے۔ لیکن ان کو یہ خیال ضرور رکھنا چاہئے کہ بہکاوے اور لاعلمی میں ایسا کچھ ہرگز نہ کریں جس سے ملکی وقار متاثر ہو یا ادارے کمزور ہوں کیونکہ ملکی عزت و وقار اور اداروں کی توہین پر کسی صورت کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کی عزت اور یہاں کے اداروں کی تکریم و مضبوطی ہر پاکستانی کی عزت اور وقار میں اضافے کا باعث ہے۔

موجودہ حکومت کے بارے میں یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ حکومت مشکلات کا شکار ہے۔ کوئی شک نہیں کہ معاشی مشکلات بوجوہ موجود ہیں اور ابھی اس حکومت کو آئے ہوئے ایک مہینہ گزرا ہے پھر بھی کوششیں جاری ہیں اور ہمیں بہتری کی امید رکھنی چاہئے لیکن یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ حکومت میں شامل جماعتوں میں اختلافات ہیں۔ یہ ایسی افواہیں پھیلانے کی ہی مذموم کوشش ہے جن کا اس کالم میں ذکر کیا گیاہے۔

انتخابات کا بھی ابھی کوئی امکان ہے نہ ہی اس کا کوئی جواز ہے۔ اگر سابق حکمران جماعت اب یہ مطالبہ کرتی ہے تو یہ کام اس وقت کیوں نہیں کیا جب وہ برسراقتدار تھی؟ وہ خود انتخاب کا اعلان کرسکتی تھی۔ اس بے محل مطالبے کا مقصد کچھ اور ہی ہے۔

 انتخابات کے مطالبے اور لانگ مارچ کے نام پر انتشار و انارکی پھیلانے کی کوششیں کسی صورت ملک وقوم کے مفاد میں ہیں نہ ہی ایسی حرکت کرنے والوں کی بہتری میں بلکہ اس کا نتیجہ الٹا بھی نکل سکتا ہے ابھی تو آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے؟ اس لیے تحمل میں ہی فائدہ ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔