وہ انوکھی ٹرین جو ٹریک کے اوپر نہیں بلکہ نیچے الٹا چلتی ہے

یہ ٹرین 1901 سے جرمنی میں دوڑ رہی ہے / اے ایف پی فوٹو
یہ ٹرین 1901 سے جرمنی میں دوڑ رہی ہے / اے ایف پی فوٹو

ویسے تو آپ نے ٹرینوں کو ٹریک کے اوپر سے گزرتے دیکھا ہوگا مگر ایسی ٹرین کو نہیں دیکھا ہوگا جو ٹریک کے نیچے الٹا دوڑتی ہے۔

جی ہاں واقعی جرمنی کی ویوپیٹرل اسکویبیبان نامی ٹرین آپ کو ٹریک پر الٹا لٹک کر دوڑتی نظر آتی ہے۔

سسپنشن ریلوے کا تصور تو 19 ویں صدی کا ہے جو اب بھی مستقبل کا محسوس ہوتا ہے کیونکہ اس میں عام ٹرین لائنوں کی بجائے سسپنشن ٹرینوں کو ٹریک کے نیچے الٹا چلایا جاتا ہے۔

اس خیال پر کئی بار کامیابی سے عمل ہوا مگر ان منصوبوں کی زندگی مختصر رہی اور آج صرف جاپان اور جرمنی میں اس طرح کی ریلوے لائنیں کام کررہی ہیں۔

اور ان میں جرمنی کی سسپنشن ٹرین سب سے زیادہ پرانی اور ابھی بھی بہترین ہے ۔

آغاز کیسے ہوا؟

1913 میں ٹرین سفر کا ایک منظر / فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
1913 میں ٹرین سفر کا ایک منظر / فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

اس کا آغاز 1880 کی دہائی میں اس وقت ہوا جب جرمنی میں صنعتوں کو تیزی سے توسیع دی جارہی تھی ، انجنیئر اور کاروباری شخصیت یوجین لانگین کی جانب سے اس وقت کولون میں واقع چینی کے کارخانے سے سامان کو ایک سسپنشن ریلوے سے بھیجنے کا تجربہ کیا گیا۔

اس زمانے میں ویوپیٹرل شہر کو ایک مسئلے کا سامنا تھا، وہاں مقامی ٹیکسٹائل صنعت کے پھیلنے سے آبادی میں اضافے کو دیکھتے ہوئے ریلوے لائن کو تعمیر کرنا ضروری ہوگیا تھا مگر دریائے ویوپر کے باعث یہ کام آسان نہیں تھا۔

دریا کے باعث یہاں روایتی ریل یا ٹرام کو چلانا ممکن نہیں تھا تو مقای حکام نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تجاویز طلب کیں اور جین لانگین وہان پہنچے۔

1893 میں انہوں نے سسپنشن ریلوے سسٹم کی پیشکش شہر کو کی اور اسے قبول بھی کرلیا گیا، جس کے بعد 1898 میں تعمیراتی کام کا آغاز ہوا اور 1901 میں اس کا افتتاح اس وقت کے جرمن بادشاہ ولیم دوم اور ان کی اہلیہ نے ٹرین کے آزمائشی سفرکے ساتھ کیا۔

جنگ کے دوران ہونے والا نقصان بھی روک نہیں پایا

اس ٹریک کی تعمیر پر 20 ہزار ٹن اسٹیل استعمال ہوا / اے پی فوٹو
اس ٹریک کی تعمیر پر 20 ہزار ٹن اسٹیل استعمال ہوا / اے پی فوٹو

اس ٹریک کی تعمیر کے لیے لگ بھگ 20 ہزار ٹن اسٹیل استعمال کیا گیا، اس کے 20 خوبصورت اسٹیشن تعمیر ہوئے جبکہ سفر کے لیے شیشے اور لکڑی سے بنی بوگیاں تیار ہوئیں، جن میں ہر بوگی میں 65 افراد سفر کرسکتے تھے۔

اس ریلوے نیٹ ورک کو 1903 میں 13.3 کلومیٹر تک پھیلا دیا گیا ، سفر کے آغاز اور اختتام پر موڑنے میں مددگار لوپس کو Vohwinkel اور اوبیربرمین اسٹیشنز میں لگایا گیا۔

چند سال بعد ٹرین کی بوگیوں کی تعداد 2 سے بڑھا کر 6 کردی گئی اور ہر 5 منٹ میں ایک ٹرین روانہ ہونے لگی۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران یہاں کام کرنے والے بیشتر افراد کو فوج کا حصہ بنادیا گیا جس کے باعث مسافروں کی تعداد میں کمی آئی ۔

پھر دوسری جنگ عظیم میں یہ ٹریک پہلے مئی اور جون 1943 اور پھر جنوری 1945 میں اتحادی افواج کی بمباری سے بری طرح متاثر ہوا ، مگر جنگ کے خاتمے کے بعد ایک سال کے اندر اسے پھر سے بحال کردیا گیا۔

ہاتھی کا سفر

1950 میں ایک ہتھنی نے بھی اس ٹرین پر سفر کیا / اے پی فوٹو
1950 میں ایک ہتھنی نے بھی اس ٹرین پر سفر کیا / اے پی فوٹو

1950 میں اس ٹرین میں اب تک اس کے سب سے مقبول مسافر ٹفی دی ایلی فینٹ یا یوں کہہ لیں کہ ایک ہتھنی نے سفر کیا۔

یہ ہتھنی ایک سرکس کا حصہ تھی جسے مغربی جرمنی میں بہت زیادہ پسند کیا جاتا تھا، چونکہ یہ انسانوں سے خوفزدہ نہیں ہوتی تھی تو سرکس کے مالک اکثر اسے اپنے شو کی تشہیر کے لیے استعمال کرتے تھے۔

وہ ٹرامز میں سفر کرچکی تھی مگر جب اس نے ویوپیٹرل اسکویبیبان ٹرین میں سفر کیا تو اس بوگی میں صحافیوں اور مقامی عہدیداران کی تعداد بہت زیادہ تھی۔

سفر شروع ہونے کے چند منٹ بعد ہتھنی چلنے کی کوشش کی مگر رش کے باعث ایسا کرنے میں ناکام رہی، اس ناکامی سے وہ گھبرا گئی جس کے بعد اس نے پہلے نشستوں کو توڑا اور پھر کھڑکی کے راستے چھلانگ لگا کر 10 میٹر نیچے دریا میں گرگئی۔

ہتھنی کے سفر اور حادثے کی یاد میں تعمیر کیا گیا مجسمہ / اے پی فوٹو
ہتھنی کے سفر اور حادثے کی یاد میں تعمیر کیا گیا مجسمہ / اے پی فوٹو

اس مقام پر دریا کی گہرائی محض 20 انچ تھی مگر اس کی تہہ کیچڑ والی تھی جس کے باعث ہتھنی کو چند خراشوں سے زیادہ نقصان نہیں ہوا ، ٹفی کے چھلانگ لگانے پر سرکس کے مالک بھی اس کے پیچھے جانا چاہتے تھے مگر لوگوں نے روک لیا اور اگلے اسٹاپ سے وہ واپس حادثے کے مقام پر پہنچے۔

اس واقعے کی یادگار کے طور پر 2020 میں ہتھنی کا ایک مجسمہ تیار کرکےدریا کے اسی مقام پر نصب کیا گیا۔

وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیاں اور حادثات

1898 میں اس کی تعمیر شروع ہوئی تھی / فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
1898 میں اس کی تعمیر شروع ہوئی تھی / فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

آج یہ ٹرین پہلے سے بھی زیادہ مقبول ہے اور کورونا کی وبا سے قبل ہر سال ڈھائی کروڑ افراد اس میں سفر کرتے تھے۔

ٹرین کے لیے جو بوگیاں آغاز میں استعمال کی جاتی تھیں ، اب وہ اس کا حصہ نہیں بلکہ اب 2016 میں متعارف کرائی گئی جنریشن 15 بلیو ٹرین کو استعمال کیا جاتا ہے۔

مگر نئی ٹرینوں کے باوجود یہ سروس اب بھی لوگوں میں بہت زیادہ مقبول ہے ، بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے عہد میں جہاں کمپیوٹر کی معاونت فراہم کرنے والے سسٹم نہیں تھے، اس طرح کے منصوبے کو تعمیر کرنا آج کے دور میں ناقابل یقین لگتا ہے۔

حالانکہ یہ ٹرین روایتی انداز کی بجائے ٹریک کے نیچے الٹا سفر کرتی ہے مگر لگ بھگ 100 سال تک یہ بہت محفوظ ثابت ہوئی ۔

البتہ اپریل 1999 میں ٹرین کو اپنے تاریک ترین دور کا سامنا ہوا جب ٹرین ایک 100 کلوگرام وزنی اس ہک سے ٹکرا گئی جو تعمیراتی کام کے دوران غلطی سے وہاں رہ گیا تھا، جس کے باعث ٹرین دریا میں گری جس سے 5 افراد ہلاک اور 47 زخمی ہوگئے۔

1999 میں ٹرین کے پہلے حادثے کا ایک منظر / فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
1999 میں ٹرین کے پہلے حادثے کا ایک منظر / فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

اس کے بعد بھی ٹرین کو نشیب و فراز کا سامنا ہوتا رہا، بالخصوص 2018 میں 350 میٹر طویل تار نیچے گلی سے ٹکرائی جس کے بعد ٹرین سفر لگ بھگ 9 ماہ تک بند رہی۔

2019 میں اس ٹرین کو دوبارہ چلایا گیا اور جب سے یہ بلاتعطل مسافروں کو منفرد انداز سے سفر کی سہولت فراہم کررہی ہے۔

اس ٹرین پر ڈیرن آلمنڈ نامی آرٹسٹ نے ایک مختصر فلم بھی بنائی جس میں 1902 میں ٹرین میں کیے جانے والے ایک سفر کا احوال بیان کیا گیا۔

ویسے کبھی اس جرمن شہر جانا ہو اور اپنے دورے کا یادگار بنانے کے خواہشمند ہوں تو اس ٹرین سروس کی ایک اصل بوگی اب بھی موجود ہے ، یہ وہی بوگی ہے جس میں بیٹھ کرجرمنی کے اس وقت کے بادشاہ ولیم دوئم نے سفر کرکے اس سروس کا افتتاح کیا تھا۔

اس بوگی کو قیصر ویگن یا شاہی بوگی کہا جاتا ہے جس کو نجی تقریبات بشمول شادی کے لیے بک کیا جاسکتا ہے۔

مزید خبریں :