اے آئی سسٹم انسانی ذہانت کے برابر پہنچنے کے لیے تیار

گوگل کی زیرملکیت ایک کمپنی نے یہ پیشرفت کی ہے / شٹر اسٹاک فوٹو
گوگل کی زیرملکیت ایک کمپنی نے یہ پیشرفت کی ہے / شٹر اسٹاک فوٹو

ماہرین مصنوعی ذہانت یا آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کو انسانوں کے برابر لانے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

گوگل کے ادارے ڈیپ مائنڈ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر نانڈو ڈی فریٹس کے مطابق دہائیوں کی کوشش کے بعد آخر کار آرٹی فیشل جنرل انٹیلی جنس (اے جی آئی) کو انسانوں کی ذہانت کے برابر لانا لگ بھگ ممکن ہوگیا ہے۔

یہ دعویٰ انہوں نے اس وقت کیا جب ڈیپ مائنڈ کی جانب سے ایک ایسا اے آئی سسٹم متعارف کرایا جو بڑے پیمانے پر پیچیدہ کام یعنی شاعری لکھنے سے لے کربلاکس سے شکل بنانے وغیرہ کو مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ Gato AI نامی اس سسٹم کو بس انسانی ذہانت کا مقابلہ کرنے کے لیے بس خود کو تھوڑا بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے ایک مضمون کے جواب میں کہا کہ انسانی ذہانت کو سر کرنا اب زیادہ وقت کی بات نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے ماڈلز کو بڑا، محفوظ، سیمپلنگ کے لیے تیز، تیز یادداشت اور دیگر  چیلنجز کا سامنا تھا جن کو عبور کرکے اے جی آئی لیول کا اے آئی سسٹم پیش کیا جاسکتا ہے۔

مگر جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا ماننا ہے کہ یہ سسٹم ریاضی کے معروف Turing ٹیسٹ کو پاس کرسکتا ہے ، تو ان کا جواب تھا کہ ابھی اس کے لیے وقت درکار ہے۔

خیال رہے کہ اس ٹیسٹ کو کمپیوٹر کی ذہانت کا ایسا پیمانہ تصور کیا جاتا ہے جو انسانوں اور مشین میں فرق قائم کرتا ہے۔

مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے بڑے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اے جی آئی میں پیشرفت انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر نک بوسٹروم نے خیال ظاہر کہ کہ بہت زیادہ ذہین سسٹم انسانی ذہانت کو پیچھے چھوڑ کر انسانوں کی جگہ لے سکتا ہے۔

اے جی آئی سسٹم خودسیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہوگا اور امکان ہے کہ انسانوں سے زیادہ بہتر ہوجائے گا، اسی لیے ایک بڑا خدشہ یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ایسی صورت میں اسے بند کرنا ناممکن ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر نانڈو ڈی فریٹس نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اے جی آئی کو بنانے کے دوران انسانیت کے تحفظ کا خیال رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر یہ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

گوگل نے 2014 میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کمپنی ڈیپ مائنڈ کو خریداتھا اور اس کی جانب سے مصنوعی ذہانت سے درپیش خطرات کو قابو میں رکھنے کے لیے کام بھی کیا جارہا ہے۔

مزید خبریں :