بلاگ
Time 28 مئی ، 2022

آزادی کے لئے مارچ

کئی ہفتوں سے ملک میں کھولتے ہوئے جذبات بالآخراس وقت صدابن کر گونجنے لگے جب لوگ جوق درجوق عمران خان کے آزادی مارچ میں شریک ہونے کے لیے نکل کھڑے ہوئے، باوجود اس کے کہ موجودہ حکومت نے جابرانہ اور فسطائی ہتھکنڈے اپناتے ہوئے اسلام آباد کی طرف جانے والے تمام راستے بند کردیے تھے، خاص طور پرپنجاب بھر میں جہاں حمزہ شہباز غیر آئینی وزیر اعلیٰ بنا بیٹھاہے۔ عوامی جذبات کا اظہار دبانے کے لیے غیر معمولی سفاکیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ حتیٰ کہ خواتین اور بچوں تک کو نہ بخشا گیا۔

امید تو تھی کہ حکومت اس حد تک نہیں جائے گی، لیکن اس نے ملک بھر سے اسلام آباد کی طرف رواں دواں عوامی قافلوں کو روکنے کے لیے ہر حد پار کرلی۔ لوگ مبینہ غیر ملکی شہ پر زرخرید سازش کے ذریعے مقامی سہولت کاروں کے تعاون سے کی جانے والی غلطی کی ’’اصلاح‘‘ کرنے آرہے تھے۔ وہ سازش جس کے نتیجے میں یہ ٹولہ اقتدار پر براجمان ہوچکاہے لیکن پھرانسان یہ بھی سوچتا ہے کہ ملک کی تقدیر کا فیصلہ ایک نہ ایک دن ہونا تھا، اس لیے بہتر ہے کہ ابھی ہوجائے۔ ریاست پر گرفت جمائے رکھنے والی روایتی مفاد پرست اشرافیہ اور اس قبضے کے خلاف بغاوت کرنے والی قوتوں، جو ایسا نظام عدل متعارف کرانے کے لیے کوشاں ہیں جہاں قانون کے سامنے سب برابر ہوں گے، کے درمیان فرق اتنا واضح کبھی نہیں تھا جتنا کہ عمران خان کی سیاست میں آمد کے بعد سے ہوا ہے، اور جو بہت جوش اور بے خوفی سے اگلے قدموں پر آکرقیادت کررہے ہیں۔ آج عملی طور پر پورا ملک تقدیر بدلنے کی اس کوشش میں روایتی انداز فکر کو جھٹک کر عمران خان کے پیچھے کھڑا ہے۔ یہ لوٹ مار اور چوری سے عبارت گزشتہ برسوں کی نسبت ایک بہت بڑی چھلانگ ہے۔ آج عوام کی نگاہوں میں امید اور عزم کی روشنی جگمگارہی ہے۔ یہ جنگ اسی روشنی کو فروزاں تر کرنے کے لیے ہے۔

یہ کسی ایک سازش کی کہانی نہیں، بلکہ اس وقت سے لے کر اب تک کے کئی واقعات ہیں جب پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک کے طور پر ابھرا تھا۔ قائد کی وفات کے بعد، اور اس حقیقت کے باوجود کہ سابق سوویت یونین کی طرف سے ہمارے وزیر اعظم کو سوویت یونین کے دورے کا دعوت نامہ موصول ہوا تھا، ہم کسی نہ کسی طرح مغرب بالخصوص دور افتادہ امریکا کے سحر میں مبتلا ہوگئے۔ خطے کے پڑوسی کی طرف سے پہلےدورے کی دعوت کو مسترد کرتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم نے امریکی دعوت نامےکی خواہش کی، اور موصول ہونے کے فوراً بعد امریکا کا دورہ کیا۔

اس دورے سے اُس طوفانی تعلق کا آغاز ہوا جس نےہمیں ایک ایسی شراکت داری میں جھونک دیا جس میں عشروں تک ہم مالی امداد کے عوض ایسے کام کرتے رہے جو زیادہ تر ہمارے اپنے ملک کے لیے نقصان دہ تھے۔ لیکن کسی نہ کسی طرح، متعدد عوامل کی وجہ سے، پاکستانی قیادت امریکاکے ساتھ تعلقات سے مرعوب رہی۔ اشتراکیت سے لڑنے کیلئے سیٹو اور سینٹو کے رکن بنے، سابق سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنے کی کوشش میں خود کو الجھا لیا،، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بن گئے جس کے نتیجے میں 80,000 سے زیادہ لوگ جاںبحق ہو گئے اور سرکاری خزانے کو 120 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ اس تعلق نے ملک میں تشدد اور قطبیت کے بیج بوئے جس کے خوفناک نتائج ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔

جب خان نے خارجہ پالیسی کو ریاستی مفادات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تبدیل کرنے کا سوچا تو انھیں ملک کے اندر اور باہر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب کہ باہر سے دباؤ کی توقع تھی جس سے دانشمندی اور ہوشیاری سے نمٹا جا سکتا تھا، لیکن یہ اندر کا دباؤ تھا جو نہ صرف غیر متوقع تھا بلکہ حد سے زیادہ شدید تھا۔خان نے پالیسی فیصلے کرنے کے دوران تمام اسٹیک ہولڈرز کو بورڈ میں شامل کرنے کی پوری کوشش کی۔ ظاہری طور پرتو کہا گیا کہ وہ معاہدے کو تسلیم کریں گے، جیسا کہ انہوں نے روس کے دورے کے معاملے میں کیا تھا، لیکن ایک اور سطح پرانھوںنے حکومت کو زبردستی بے دخل کرنے کے لیے اس کے کام کو سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ احتساب کے مقدمات پر کارروائی نہ ہونا، نواز شریف کا لندن فرار، قابل اطلاق قانونی تقاضوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مجرموں کی ضمانتیں، حکومت کے اتحادیوں کی چالبازی اور ریاستی اداروں کا تعاون سے انکار وہ ہتھیار تھے جو حکومت کی عملداری کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیے جارہے تھے۔

اس کے ساتھ ہی بیرونی قوتیں ان مقامی سہولت کاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں مصروف تھیں۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر سے ملاقات کے دوران ڈونلڈ لو نے کھلی دھمکی دی کہ اگر عمران خان کو وزیراعظم کے عہدے سے نہ ہٹایا گیا تو ملک کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ اس دوران امریکی افسران نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے متعدد ملاقاتیں کیں اور تحریک انصاف کے کچھ ناراض اراکین کو بھی وفاداری تبدیل کرنے پر آمادہ کیا۔

خان صاحب کو اقتدار سے ہٹایا جاسکتا ہے لیکن پاکستان کو غلامی اور خوف کے طوق سے نجات دلانے کے مشن کو اب وہ لوگ نقصان نہیں پہنچا سکتے جواس غلامی کے ذمہ دار ہیں۔ آزادی کا مارچ ایک جنگ ہے جو اس خواب کی تعبیر ہے جب پاکستان اور اس کے عوام بیرونی طاقتوں یا ان کے اندر کے مجرمانہ ساتھیوں کی مداخلت کے بغیر فیصلے کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ ڈی چوک تک پہنچنے والے قافلے پریشان حال لوگوں کے لیے امید کا پیغام لے کر آتے ہیں جب وہ افق کے پار پھیلتی روشنی کی کرنوں کو دیکھتے ہیں۔وہ واپس آتے رہیں گے یہاں تک کہ آخری فتح کی مہر ثبت ہوجائے، جیسا کہ بے مثال شاعر، فیض نے کہا تھا:

کہیں تو ہوگا شبِ سُست موج کا ساحل

کہیں تو جا کے رکے گاسفینہ غم دل


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔