وائرل کرنے سے پہلے ذرا سوچ لیں

موبائل فون یقیناً انسانی ضروریات میں شامل ہوچکا ہے۔ اس کے استعمال نے جہاں بہت سہولت فراہم کی ہے وہیں بہت سی مشکلات بھی کھڑی کیں ہیں۔ جن کا ادراک نہیں کیا جارہا۔ جو متاثر ہوتا ہے وہی اس تکلیف کو سمجھ پاتا ہے لیکن تکلیف پہچانے والے کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس میں سب سے اہم نجی احساسات کی پامالی ہے۔

 حالیہ دنوں میں ایک معروف شخصیت کا انتقال ہوا ان کی زندگی کے آخری دور میں کچھ عجیب معاملات ہوئے جو کہ سوشل میڈیا پہ خوب شیئر کئے گئے۔ یقینا وہ ایک سلیبرٹی تھے ان کا میڈیا میں تذکرہ ہونا کوئی معیوب بات نہ تھی لیکن دنیا میں کوئی شخص اکیلا نہیں ہوتا کئی لوگ اس شخصیت سے گہرا تعلق رکھتے ہیں اور وہ سلیبرٹی سے متعلق لگنے والی خبروں اور بننے والی ویڈیوز سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی اولادیں۔ 

ہر ذی شعور اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ بچے اپنے ماں باپ کو آئیڈیلائز کرتے ہیں اور انہیں پرفیکٹ سمجھتے لیکن اگر ان کو اپنے والدین میں کمی یا برائی نظر آئے تو وہ اس کمی یا برائی کو دنیا کی نظروں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ناکہ اسے میڈیا پر وائرل ہوتے ہوئے دیکھیں۔ ایسے میں "وائرس کا شکار" اوہ معاف کیجئے گا منفی خبروں کو وائرل کرنے کے شوقین افراد ان بچوں کے جذبات اور احساسات سے بے خبر اپنی وائرل کی گئی ویڈیوز پہ کی جانے والی "لائیک" کی بڑھتی ہوئی تعداد گنے میں لگے ہوتے ہیں۔ 

کیا اس حیوانیت کے دور میں ان بچوں کے احساسات و جذبات کی کوئی حیثیت ہے بھی کہ نہیں؟ایسے میں اس سلیبرٹی کے انتقال پر ان بچوں کی جان بخشی نہ کی گئی۔ ہر عام وخاص گھر، ہسپتال، سرد خانے، اور جنازہ گاہ کے اندر اور باہر موبائل فون ہاتھ میں لئے لمحہ بہ لمحہ live coverage میں لگے ہوئے ہیں اور سارا کا سارا زور ان "معصوم بچوں " کے جذبات کی عکس بندی کرنے پر تھا۔ انتہائی غیر اخلاقی، قابل مذمت، اور غیر انسانی عمل تھا۔ کیونکہ یہ بچے سلیبرٹی نہیں تھے انہوں نے اپنے آپ کو سوشل میڈیا پہ مشہور نہیں کیا تھا بلکہ اپنے اکاؤنٹس ہی بند کردیئے تھے۔ ایسے میں اپنے باپ کی موت پر انہیں دل کھول کر رونے اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے، اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرنے کا پورا حق تھا۔ لیکن افسوس ان موبائل کیمروں کی بہتات اور لائیو کمنٹری نے ان بچوں کو خوفزدہ کردیا، بجائے اپنے جذبات کا اظہار کرنے وہ کیمرے اور کیمرہ پکڑنے والوں سے بچتے پھر رہے تھے، جذبات سے مغلوب ہو کر روتے اور بے قابو ہونے سے پہلے آنسو پونچھ لیتے کہ کہیں کیمرے کی آنکھ محفوظ نہ کر لے۔ 

کس قدر بے حسی کی بات ہے انسان اپنے والدین کی وفات کا سوگ بھی نہ منا سکے کہ ویڈیوز وائرل ہوجائے گی اور ان کے جذبات کی عکس بندی کے ساتھ ساتھ عجیب و غریب قسم کی کمنٹری بھی جاری رہے گی۔ذرا یہ سب کچھ اپنے اوپر رکھ کر سوچئے کس گھر میں مسائل نہیں ہوتے، رنجشیں نہیں ہوتیں لیکن والدین کی میت پر سر رکھ کر رویا جاتا ہے، اپنوں کے کاندھے تلاش کئے جاتے ہیں، گلے لگ کر آنسو بہائے جاتے ہیں بے فکری کے ساتھ۔ نا کہ منہ چھپا کر، جذبات کو روند کر کیمرہ مینوں سے چھپا جاتا ہے۔ اور رات کی تاریکی میں تکیوں کو گیلا کیا جاتا ہے۔ وائرل کرنے سے پہلے ذرا سوچ لیجیے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔