FATF جشن قبل از وقت

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے 14سے 17جون تک جرمنی کے شہر برلن میں ہونے والے اجلاس کا فیصلہ پاکستان کی معاشی بقاء کیلئے نہایت اہم تھا جس کیلئے حکومت نے تمام اسٹیک ہولڈرز سےمل کر 4 سال کا مشکل سفر طے کیا اور FATF کے تحت ٹیرر فنانسنگ کے 27اور منی لانڈرنگ کے 7نکات پر عملدرآمد کرتے ہوئے تمام 34نکات کو دو مرحلوں میں مکمل کیا۔ حالیہ اجلاس میں پاکستان کی اکتوبر 2021ء سے مارچ 2022ء تک FATF قوانین پر عملدرآمد کا جائزہ لیا گیا۔ اس دوران بھارت کی پوری کوشش تھی کہ ناکامی کی صورت میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کیلئے راہ ہموار کی جائے لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکا۔

FATF کے 39ممبرز ہیں جن میں 2ریجنل GCC اور EU آرگنائزیشنز بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یہ 206 مبصرین کا ایک طاقتور بین الاقوامی ادارہ ہے جس میں IMF، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، اقوام متحدہ، یورپی یونین، ایشیاء پیسفک گروپ اور عالمی فنانشل انٹیلی جنس ادارے شامل ہیں۔ ادارے کا کام دنیا میں منی لانڈرنگ اور دہشت گرد ی کے لئےفنانسنگ کی روک تھام کو یقینی بنانا ہے۔ اس ادارے نے 29جون 2018ء کو اپنے پیرس کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا تھا جس سے نکلنے کیلئے FATF نے 34نکاتی ایکشن پلان دیا تھا جس کو پاکستان نے کامیابی سے مکمل اور نافذ کیا جس کا اعتراف FATF کے صدر نے حالیہ اجلاس میں کیا۔

 پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد بیرونی سرمایہ کاروں اور مالیاتی اداروں کا پاکستان میں نئی سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے اعتماد بحال ہوگا۔ پاکستان FATF کی ذیلی تنظیم ایشیاء پیسفک گروپ کے ذریعے تنظیم سے وابستہ ہے جو دنیا کے ممالک اور مالیاتی اداروں کی تین اقسام میںدرجہ بندی کرتی ہے۔ ایک بلیک لسٹ کہلاتی ہے جس میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جو تنظیم کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور FATF سے تعاون نہیں کرتے یعنی وہ پیسوں کی اسمگلنگ، رشوت خوری اور کرپشن کے پیسوں کی غیر قانونی منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔ اس لسٹ میں صرف دو ممالک شمالی کوریا اور ایران شامل ہیں۔

 FATF کی دوسری لسٹ ’’گرے لسٹ‘‘ ہوتی ہے جن میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جو FATF سے تعاون تو کررہے ہیں مگر اب تک ان کے ملک میں نئے قوانین پر قانون سازی نہیں ہوسکی۔ گرے لسٹ میں پاکستان سمیت 18 ممالک شامل ہیں جبکہ حال ہی میں متحدہ عرب امارات کو اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کی خلاف ورزی کے باعث گرے لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ تیسری لسٹ ’’واچ لسٹ‘‘ کہلاتی ہے جو شائع نہیں کی جاتی۔

 رپورٹ کے مطابق پاکستان نے نئے منی لانڈرنگ اور دہشت گرد فنانسنگ قوانین کے تحت اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، SECP، نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی کی بحالی، بینکوں میں بے نامی اکائونٹس کا خاتمہ، اکائونٹ ہولڈر کی جانکاری، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کا بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے تعاون، ANF میں قانونی اصلاحات، کالعدم تنظیموں جن میں جیش محمد، جماعت الدعوۃ اور لشکر طیبہ بھی شامل ہیں، کے اثاثوں پر کریک ڈائون، انکم ٹیکس اور فارن ایکسچینج قوانین میں ترامیم کی طرح کے اقدامات کیے ہیں۔

FATF کے منی لانڈرنگ کے نئے قوانین کے تحت پاکستان نے 26630شکایتوں پر کارروائی کی، ایف بی آرنے 22000سے زائد کیسز میں 351ملین روپے کے جرمانے اور SECP نے 146697کیسز کا جائزہ لیا۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (FMU) نے بے شمار مشکوک ٹرانزیکشن پکڑیں۔ FATF کے صدر نے ادارے کی تجویز کردہ اصلاحات پر عملدرآمد کو پاکستان کی سلامتی و استحکام کیلئے خوش آئند قرار دیا ہے۔

 ان نکات پر عملدرآمد دیکھنے کے لئے FATF کی تیکنیکی ٹیم اکتوبر میں آن سائٹ وزٹ پر پاکستان آرہی ہے جو ان اداروں میں اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گرد فنانسنگ اور نئے قوانین پر عملدرآمد کا جائزہ لے کر FATF کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی جس کے بعد انشاء اللہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا لہٰذا ہم گرے لسٹ سے نکلنے کے باب میں صرف ایک قدم دور ہیں۔ میری حکومت کو تجویز ہے کہ تیکنیکی ٹیم کے آنے سے پہلے اداروں میں نئے قوانین پر عملدرآمد اور FATF کی تیکنیکی ٹیم سے شیئر کرنے کے لئے مصدقہ ڈیٹا دستیاب ہو تاکہ FATF ٹیم کو تسلی ہوسکے کہ ان کی سفارشات پر عملاً عملدرآمد ہورہا ہے۔

میں نے کراچی میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے ممتاز صنعتکاروں کے ساتھ میٹنگ میں درخواست کی تھی کہ وہ اپنے حالیہ غیر ملکی دوروں میں FATF کیلئے امریکہ، یورپ اور دیگر دوست ممالک سے سفارتی سپورٹ حاصل کریں جس کا ذکر انہوں نے حال ہی میں اپنی والدہ بینظیر بھٹو کی سالگرہ کے جلسے میں کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ چین، ترکی اور ملائیشیا نے FATF کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کو سپورٹ کیا جبکہ ہمیں امریکہ، یورپ اور جرمنی کی بھی کسی حد تک سپورٹ حاصل رہی۔ 

وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو، حنا ربانی کھر اور سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے بھی مختلف ممالک کا دورہ کرکے انہیں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات سے آگاہ کیا اور ان ممالک کی حمایت حاصل کی۔ اس موقع پر میں سابق وفاقی وزیر حماد اظہر اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جن کی جی ایچ کیو میں قائم کور سیل کی سول اور ملٹری ٹیم نے FATF ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا اور آج پاکستان کی FATF اصلاحات دنیا کے سامنے ایک رول ماڈل ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔