بلاگ
Time 30 جون ، 2022

لوڈشیڈنگ اور ہماری عوام!

فوٹو:فائل
فوٹو:فائل

بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ ملک میں لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ سننا کیا دیکھا اور جھیلا بھی۔ یہ اذیت کا نہ ختم ہونے والا سفر کبھی اپنی منزل کو پہنچے گا بھی یا نہیں؟ اس کے انتظار میں زمانے بیت جائیں گے اور شاید آنے والی نسلیں بھی یہ عذاب جھیلتی رہیں۔

 مزے کی بات یہ ہے کہ ہر حکومت جو اقتدار میں ہو یا اقتدار میں آنے کی تیاری میں ہو، منجن لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا ضرور بیچتی ہے۔ دہائیاں بیت گئیں مگر ہوا کچھ نہیں، بجلی آگئی، بجلی چلی گئی، میں زندگی گزر رہی ہے۔

گرم موسم کی اذیت اور یہ لوڈ شیڈنگ، روز خبروں میں پڑھتے بھی ہیں اور دیکھتے بھی ہیں، عوام اس مشکل میں گھنٹوں لوڈ شیڈنگ برداشت کرتی ہے اور پرسانِ حال کوئی نہیں۔ 

کراچی ہو یا لاہور، کے الیکٹرک ہو یا واپڈا ، کوئی اور شہر ہو یا دیہات عوام بس اپنا غصہ اتارنے کیلئے بے تاب ہوتی ہے۔ عوام کے پاس احتجاج کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں۔ جس گھر میں بزرگ اور بچے ہوں ان کی مشکلات کا اندازہ سب ہی کو ہے کہ وہ کس اذیت اور کوفت سے گزرتے ہوں گے مگر جواب کسی کے پاس نہیں۔

 عوام کے اس کرب کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ 'معزز کسٹمر' کا ایک دل کو تسلی دینے والا پیغام ضرور موصول ہو جاتا لیکن وہ پیغام 'اعلانیہ لوڈشیڈنگ' کا تہنیتی پیغام ہو تا ہے اور اگر غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا بھی میسج آنے لگ گیا تو بس عوام بلڈ پریشر ہائی کی تیاری پکڑے!

ا تنا شدید گرم موسم اور انتظامیہ کی نا اہلی ۔ عوام بس صبر کا امتحان ہی دے رہی ہے! اب جبکہ وزیراعظم نے جولائی میں مزید لوڈشیڈنگ کا عندیہ دے دیا ہے تو عوام میں اس بیان سے مزید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ہمارے ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ 70 سال سے اس ملک کو کوئی ایسا لیڈر یا حکمران نہیں ملا جو مخلص ہو کر اس مملکت خداداد کی ترقی و خوشحالی کے لیے سوچ سکے۔جو بھی آیا اس نے اپنا مفاد عزیز رکھا اور ملک کی عوام کو مختلف مسائل سے دوچار کیے رکھا۔

ان ہی بت شمار مسائل میں لوڈشیڈنگ ایک ایسا دیرینہ مسئلہ ہے جس کی اذیت سے آج تک یہ عوام چھٹکارا نہیں پا سکی۔جہاں شہروں میں 6 ،6 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے وہیں دیہات اور پسماندہ علاقے 12 سے 15 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے عفریت کا شکار ہیں۔

سردیاں تو جیسے تیسے گزر جاتی ہیں لیکن گرمیوں میں یہ عذاب، عذابِ شدید کے مترادف ہوتا ہے اور اس پہ سونے پہ سہاگا یہ کہ ہمارے ملک کے چار موسموں میں سب سے طویل دورانیہ موسمِ گرما کا ہوتا ہے۔صاحبِ حیثیت حضرات تو جنریٹرز، یو پی ایس یا ٹھنڈے علاقوں کا رُخ کر کے اس کا مداوا کر لیتے ہیں لیکن ایک غریب آدمی کو اپنے ہی علاقے میں رہ کر بنا کسی متبادل حل کے اس جہنم میں گزارہ کرنا پڑتا ہے۔خاص کر بچوں اور بزرگوں کا تو حال قابل رحم ہوتا ہے۔

آپ تصور کیجئے کہ آپ کے سامنے آپ کے بچے بغیر پنکھے یا اے سی کے گرمی سے بلبلا رہے ہیں اور والدین اپنی بیماری کے ساتھ ساتھ ایسی اذیت سے دوچار ہیں کہ آپ کے پاس سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں۔

بس دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ اس پاکستان کو ایسے حکمران عطا کرے جو اپنے مفادات کے بجائے عوام کے مسائل اور خوشحالی کی جنگ لڑ سکیں، آمین۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔