آو ملکر کراچی کو ڈبوئیں

موسمی تبدیلی/ climate change جس کی بدولت پوری دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ سائنس کی ترقی کی بدولت اس کی اطلاع پہلے سے دے دی گئی تھی۔ لیکن شاید ذمہ داران نے یقین نہیں کیا تھا۔ یا انہیں احساس ہی نہیں کہ ان کی ذمہ داریاں ہیں کیا۔

اگر حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے "ذمہ داران" جس میں "حکومت وقت اور بیوروکریسی" دونوں شامل ہوتے ہیں، اپنے آپ کو مشکل وقت میں جائزہ لینے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ یعنی disaster analyst. پہلے جب کبھی سیلاب یا زلزلہ آتا تھا وزیر اعظم ہوں یا وزیر اعلٰی اپنے مخصوص ٹولے کے ساتھ جہاز پہ بیٹھتے اور متاثرین کا فضائی جائزہ لیتے۔ ارے بھئی یہ کون کا طریقہ ہے۔

 لوگوں کا مالی اور جانی نقصان ہورہا ہے اور ہوائی جہاز پہ بیٹھ کر ایندھن پھونک رہے ہیں اور ساتھ میں ٹی وی اینکر اور کیمرہ مین کو بھی بٹھایا ہوا ہے تاکہ آپ کی "فضائی جائزہ لیتے ہوئے ویڈیوز ٹی وی میں نشر ہوسکیں" جب کہ اینکر پرسن کمنٹری کررہے ہوتے تھے کہ وزیر اعظم صاحب یا وزیر اعلٰی صاحب سیلاب کی تباہ کاریوں یا زلزلہ کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے کیلئے فضائی سفر کررہے ہیں۔ کیا بات ہے کیا ان کی آنکھیں دور بین سے بھی تیز ہوتی ہیں کہ بادلوں میں جاکر انہیں زمین کے حال سے آگاہی ہوجاتی ہے؟ لیکن افسوس کبھی اس پہ تنقید نہ کی گئی کہ فضائی دورہ کرنے یا فضائی جائزہ لینے سے بہت بہتر ہے کہ ان مصیبت زدگان کی مدد جہاز سے بھی کی جائے زمینی راستے کے ساتھ ساتھ۔ بالکل اسی طرح اب ماحولیاتی تبدیلی کی بدولت بارشوں کا زور بڑھ گیا ہے۔ خاص طور پر معتدل آب و ہوا کے علاقے جن میں کراچی سر فہرست ہے۔

کیا یہ بات ارباب اختیار کو معلوم نہ تھی کہ کچھ انتظام ہی کر لیا جاتا۔ اب حال یہ ہے کہ جب موسلا دھار بارش کے کراچی کی سڑکیں اور گلیاں ڈوب جاتی ہیں۔ تو "بڑے لوگ" یعنی ارباب اختیار، میڈیا ہاؤس کے نمائندوں کو اپنے گھر بلاتے ہیں پھر رین ایمرجنسی کے محکمہ سے سارے حفاظتی سامان منگوائے جاتے ہیں۔ پھر انہیں پہن کر دھوم دھام سے "وہ بڑے" اپنے گھر سے نکلتے ہیں کہ وہ بارش کی تباہی کے حالات کا جائزہ لینے جارہے ہیں جس میں کیمرہ "بڑے صاحب" کو زیادہ فوکس کرتا ہیں "تباہی" کو کم۔ یوں وہ اپنے گھر کے قریب ترین سڑک پہ جاتے ہیں دیر تک سارے کیمرے "ان" کو فوکس پہ رکھتے ہیں ( جیسے کسی اشتہار کی ویڈیو بن رہی ہو) پھر سارے ٹیلی ویژنز ان کو بار بار نیوز بلیٹن میں نشر کرتے رہتے ہیں۔

 اور صاحب بہادر اپنے گھر پر بیٹھے چینل بدل بدل کر اپنے آپ کو دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں اور موازنہ کرتے ہیں کہ کس چینل نے کتنی دیر چلایا اور کس نے زیادہ اچھا فوکس کیا۔ یعنی دونوں دور میں ذاتی تشہیر کا پہلو مشترک ہے۔ جب ایک ٹی وی ہو یا کئی عوامی نمائندے ذاتی تشہیر کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ خدمت کا جذبہ کہیں نظر نہیں آتا۔ کیوں کہ جب یہ سارے چینلز اپنی ذاتی کوریج (جو فرمائشی نہیں ہوتی) کرتے ہیں تو چن چن کر ان علاقوں، سڑکوں اور گلیوں کی کوریج کرتے ہیں جہاں زیادہ تباہی ہوئی ہوتی ہے۔ "بڑے لوگوں" کی طرح مخصوص علاقے کی نہیں۔

[email protected]


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔