بلاگ
Time 27 جولائی ، 2022

سدا کا دکھی انسان

انسان سدا کا دکھی ہے۔ اس کے یہ دکھ درد کم زیادہ ہوتے رہتے ہیں‘لیکن ختم کبھی نہیں ہوتے۔ آپ بڑے سے بڑے کامیاب انسان سے پوچھیں کہ کیا اس کے دل میں کوئی حسرت ، کوئی دکھ اب بھی موجود ہے ۔ وہ ایک ٹھنڈی آہ بھرے گا اور ایک ٹیپ چلنا شروع ہوجائیگی ۔ آپ محسوس کریں گے کہ یہ کہاں کا کامران انسان ہے ۔ یہ بیچارہ تو دکھوں کا مارا کوئی جوگی ہے ۔

بس کر میاں محمد بخشا، موڑ قلم دا گھوڑا

ساری عمر دکھ نہیں مکنے، ورقہ رہ گیا تھوڑا

بڑے بڑے بادشاہ ساری زندگی مضطرب رہے۔ اسی اضطراب میں وہ ہمسایہ سلطنتوں کو اپنے زیرنگیں لانے کی جنگیں لڑتے رہے۔ محلاتی سازشوں نے کبھی انہیں اقتدار سے لطف اندوز ہونے نہیں دیا ۔ جیسے آج پاکستان میں پیپلزپارٹی یا ن لیگ کو اقتدار مل بھی جائے تو عمران خان انہیں اس اقتدار سے لطف اندوز ہونے نہیں دیتا۔ بڑے بڑے بادشاہ ایک دوسرے کی سلطنت ہتھیاتے رہے۔ کبھی کوئی مطمئن نہ ہو سکا ۔

آج دنیا میں بظاہر سلطانی جمہور کا پرچم لہرا رہا ہے۔ بظاہر انسان مہذب ہو چکاہے۔ غلاموںکی باضابطہ خرید و فروخت بند ہو چکی ہے۔اس دنیا میں ہر کہیں لہو بہہ رہا ہے ۔ جہاں بھی کہیں کسی قوم کی دفاعی قوت کمزور پڑی‘ عالمی قوتیں ان پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑتی ہیں۔ آپ لیبیا کو دیکھ لیں ۔ جیسے جیسے کسی بادشاہ کی سلطنت میںاضافہ ہوتا چلا جاتاہے‘ اسی طرح اس کی بے چینی بڑھتی چلی جاتی ہے ۔

سرکارﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’ ایک سونے کی وادی آدمی کو دے دی جائے تو وہ دوسری وادی کی آرزو کرے گا اور مٹی کے سوا کوئی چیز اس کا پیٹ بھر نہیںسکتی‘‘۔ اب‘ غریبوں کو دیکھیے ۔ بہت سے لوگو ں کو کسمپرسی کی زندگی گزارتے دیکھا۔ ان لوگوں کا طرزِفکر یہ تھا کہ اگر ہمیں روٹی‘ کپڑا اور مکان نصیب ہو جائے تو پھر ہم مطمئن ہو جائیں گے ۔ان میں سے کچھ کے جب دن پھرے ،جب انہیں یہ چیزیں حاصل ہو گئیں تو پھر وہ تعیشات کے لیے لڑنے لگے ۔

انسان مطمئن کیوں نہیں ہوتا؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ کو ایک گھر مل گیا، شادی ہو گئی ، ایک بچہ مل گیا، زندگی کی بنیادی ضروریات حاصل ہو گئیں تو آپ مطمئن ہو جائیں۔ انسان ساری زندگی پاگلوں کی طرح لڑتا کیوںرہتا ہے؟

دراصل جنت سے نکالا ہوا انسان‘ وہ سب کچھ دوبارہ حاصل کرنا چاہتاہے‘ جو اسے وہاں حاصل تھا۔ محلات‘ سونے کے برتن‘ لا محدود ریاست‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ سیارہ بہت چھوٹا ہے ۔ اگر کوئی بادشاہ اس پوری زمین پہ اقتدار حاصل کر بھی لے تو اس کے دل میں چاند اور مریخ کے وسائل حاصل کرنے کی دھن سوار ہو جائے گی ۔ اسے galaxyپر حکومت چاہیے اور وہ اس دنیا میںاسے مل نہیں سکتی۔

انسانی بے چینی کی اصل وجہ یہ ہے کہ خواہشات کا کوئی دوسرا کنارہ ہے ہی نہیں۔ آپ عسرت سے خوشحالی میں آبھی جائیے تو اطمینان نام کی چیز آپ کو ملنے والی نہیں۔ دوسری طرف تمام انسانوں کی اگر پانچ فیصد خواہشات بھی پوری ہو جائیں تودنیا تباہی و بربادی کا شکار ہو جائے۔ ہر طرف جنگیں ہوں ۔دنیا میںکوئی مزدور اور کوئی سپاہی باقی نہیںرہے گا۔اسی لیے انہیں مجبور پیدا کیا گیا ہے ۔

بچہ بازار میں سے گزرتے ہوئے ہر چمکدار چیز حاصل کرنے کیلئے شور مچاتا ہے۔ یہ تو اس کے زیادہ عقل رکھنے والے ماںباپ ہوتے ہیں‘ جو اس کی کچھ خواہشات کو پورا کرتے ہیں، اکثر کو نظر انداز ۔ اسی طرح یہ بچہ انجکشن سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اس کے سمجھدار والدین‘ اس کا رونا پیٹنا نظر انداز کرتے ہوئے اسے زبردستی انجیکشن لگواتے ہیں۔ ذرا تصور میں لائیے کہ جنت سے نکالا ہوا آدمی دراصل اپنیPowersواپس حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ہر چیز کو اپنے کنٹرول میںکرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان ہر معاملے کو اپنے ہاتھ میں کرنا چاہتا ہے ۔

 دراصل اوپر والی دنیا میں ہر چیز انسان کے اختیار میںتھی۔یہ اس طرح کی بادشاہت تھی‘ جسے انسان زمین پر کبھی پا نہیں سکا۔ اسے دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش انسان کو بے چین رکھتی ہے ۔ افسوس کہ اس دنیا میںانسان کبھی تمام معاملات پر وہ کنٹرول حاصل نہیںکر سکے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا بنی ہی اس طرح ہے کہ اس میں انسان اپنی زندگی کو ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ نہیں بنا سکتا۔ انسان کو سب کچھ مل جاتاہے‘ اس کے بعد اسے ایک لا علاج بیماری میں مبتلا کر دیا جاتاہے ۔ کسی کے ہاںایب نارمل بچہ پیدا ہوجاتاہے۔ کسی کی بیوی بدزبان ہے تو کسی کا شوہر بے رحم۔ کوئی بیمار ہے اور اس کی باقی زندگی اسی بیماری کو بھگتتے ہوئے گزر جاتی ہے ۔

اسکے علاوہ دو بہت بڑی چیزیں‘ جو انسان کے کنٹرول میںنہیں ہیں۔ وہ ہیں Stimulusاور خیالات کا نزول۔Stimulus کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے ساتھ زندگی میں جو جو واقعات پیش آنے ہیں ، ان کو وہ کنٹرول نہیں کر سکتا۔ اسی طرح وہ اپنے دماغ پہ مسلسل برستے ہوئے خیالات کو کنٹرول نہیں کر سکتا ؛لہٰذا اسے آزادی اور اطمینان بھی نصیب نہیں ہو سکتا۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ خدا زندگی بھر انسان کو مسائل سے نکلنے کیوں نہیں دیتا؟ ''خود سے خدا تک‘‘ کے مصنف ناصر افتخار کے الفاظ میں اگر انسان کو ان تمام مسائل سے نکال کر سب چیزیں اس کے کنٹرول میں دے دی جائیں‘ تو دنیا اپنی مٹھی میں کر لینے والا انسان پھر کہاں خدا کو یاد کرے گا۔ زیادہ تر کیسز میں‘ یہ تو انسان کے مسائل ہیں‘ جو اسے خدا کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں‘ان حالات و مشکلات کی اصل وجہ یہ ہے کہ خدا یہ چاہتاہے کہ ہم اسے یاد کرتے رہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔