بلاگ
Time 13 اگست ، 2022

ایک تھا لاڈلا

ہر شے کی ضد اس کے داخل میں ہی موجود ہوا کرتی ہے، زندگی کے بطن سے موت جنم لیتی ہے۔ انسان کی سب سے بڑی خوبی، اس کی سب سے بڑی خرابی بن سکتی ہے۔ حُسن اللّٰہ کا انعام ہے، مگر اپنے اندر یہ امکان ضرور رکھتا ہے کہ حسینوں کی زندگی عذاب کر دے یعنی ’اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے، جس نے ڈالی بری نظر ڈالی‘، خواب کی کوکھ میں تعبیر کا دھڑکا چھپا ہوتا ہے، وصل عشق کی معراجِ ہے مگر اس کے جوف میں جدائی دھڑکتی ہے، احمد مشتاق فرماتے ہیں ’ملنے کی یہ کون گھڑی تھی، باہر ہجر کی رات کھڑی تھی‘۔

کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت اور ذہانت نے انہیں مسندِ اقتدار پر متمکن کیا، اور انہی وظائف کے سبب وہ نخلِ دار پر جھول گئے، نواز شریف نے نعرہ لگایا ’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘، عوام نے انہیں سرآنکھوں پر بٹھا لیا، پھر اسی نظریے نے انہیں جیل اور جلاوطنی کے لق ودق صحرا میں لا کر چھوڑ دیا، سوال یہ ہے کہ کیا آج ایسا ہی کچھ معاملہ عمران خان کے ساتھ بھی درپیش تو نہیں ہے؟

کیا خان صاحب کی سب سے بڑی خوبی ان کی گردن کا طوق بننے جا رہی ہے؟عمران خان کے جارحانہ مزاج نے انہیں سیاست کے بامِ عروج پر پہنچا دیا تھا، کیا اسی ذہنی فضا میں انہوں نے سوئے ہوئے شیر کی دم پر چٹکی کاٹ لی ہے؟

یہ درست ہے کہ ریاست کے تمام اداروں نے مل کر، دن دہاڑے عمران خان کی سیاست کی ڈولی کو کاندھا دیا، خان صاحب کا برائیڈل میک اَپ کیا گیا، ہر داغ دھبے کو concealer سے چھپایا گیا، سولہ سنگھار کئےگئے.

عرقِ گلاب سے غسل دیا گیا، اور جب دلہن تیار ہوئی تو باوردی سکھیوں، سہیلیوں نے بلائیں لیں اور یک زبان ہو کر گنگنانا شروع کر دیا ’کِنا سوہنڑا تینوں رب نے بنایا‘۔ پھر میڈیا کی کنپٹی پر طمنچہ رکھ کر حکم صادر کیا گیا کہ اب اس تصویر کو بیوٹی فلٹر لگایا جائے، کوئی کمی رہ گئی ہے تو اسے بھی دور کیا جائے، خبردار ’مشاطہ دیکھ شانے سے تیرا کٹے گا ہاتھ، ٹوٹا گر ایک بال کبھو زلف ِ یار کا‘۔

دوسری طرف اسی پارلر میں کچھ چڑیلیں بھی تیار کی گئیں، یک چشم زیرِ چرم،کنجِ دہن سے بہتی ہوئی خون کی لکیر اور چہرے پرشیطانی مسکراہٹ، جنہیں دیکھ کر ہومر کی سرسی بھی سہم جائے۔اس پس منظر کے باعث جمہوریت پسند عمران خان سے اس قدر برگشتہ ہوئے کہ ان کی خوبیوں کا اقرار کرنا اور ان کا توڑ کرنا بھی بھول گئے۔بلاشبہ، عمران سے زیادہ دُھن کا پکا سیاست دان ہمارے کوچہء سیاست سے نہیں گزرا۔

خان صاحب کی جارحیت بے مثال ہے، اور بالخصوص جب وہ حکومت سے نکلے تو ان کے یہ ہنر اور بھی چمک کر سامنے آئے ، انہوں نے ایسے مقدس گریبانوں پر ہاتھ ڈالا جو اب تک سویلین لمس سے نا آشنا تھے، انہوں نے افراد اور اداروں کو پچھلے قدم پر دھکیل دیا، ان کا ہر سیاسی مخالف کرپٹ قرار پایا اور ان سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والا ہر صحافی ’لفافہ‘ کہلایا۔

بے شک، عمران خان کی یلغار حیرت انگیز تھی۔ دوسری طرف اپنی انتہائی بے سروپا حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان نے بیرونی سازش کا افسانہ گھڑا جو ان کے حامیوں نے بہ خوشی حرزِ جاں بنا لیا، اور گلیوں میں ’ہم کوئی بھکاری ہیں، ہم کوئی غلام ہیں‘ جیسے تصوراتی نعرے گونجنے لگے۔ پھر ضمنی انتخاب کے نتائج سے تو عمران یکسر بپھر گئے، اور پنجاب میں پرویز الٰہی کی حکومت آنے سے انہیں نئے انتخابات کی منزل بالکل سامنے نظر آنے لگی۔

جارح مزاج جب کامیابیاں سمیٹ رہا ہوتا ہے تو اکثر اسے یہ سمجھ نہیں آتا کہ رُکنا کہاں ہے، ہٹلر نے بھی یہی غلطی کی تھی، 1941 کی سردیوں سے پہلے ماسکو پر قبضہ کرنے کے بجائے جرمن فوج کو یوکرین اور اسٹالن گراڈ کی طرف موڑ دیا، یہ ایک تاریخ ساز غلطی تھی۔ عمران خان بھی نہایت کامیابی سے یہ تاثر دے رہے تھے کہ وہ ادارے کے نہیں بس ایک آدھ فرد کے خلاف ہیں، لیکن پھر انہیں اور ان کے پر خروش ٹائیگرز کو سمجھ نہیں آئی کہ کہاں رُکنا ہے، کہاں پر فرد ختم ہو تا ہے اور ادارہ شروع ہو جاتا ہے۔سپہ سالار بھی یہ سوچ کر برداشت کر رہے تھے کہ ان کے کسی بھی ردِ عمل کو ذاتی لڑائی سمجھا جائے گا۔لیکن جب پاک فوج کے افسر ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہوئے اور پی ٹی آئی کا منظم سوشل میڈیا بے لگام ہوا تو بند ٹوٹ گئے، فیصلہ ہو گیا۔

اس فاشزم کو روکنا ہو گا ورنہ یہ فوج کے ادارے کو بھی بہا کر لے جائے گا۔کچھ اقدامات واضح اشارہ کر رہے ہیں کہ عمران خان کو آخرِ کار مسندِ دلبری سے معزول کر دیا گیا ہے۔ پاکستان الیکشن کمیشن نے آٹھ سال بعد ممنوعہ فنڈنگ کیس کا دور رَس فیصلہ سنا دیا، یہ فیصلہ عمران خان کے لئے دلدل ہے، وہ اس سے نکلنے کی جتنی کوشش کریں گے، اس میں دھنستے چلے جائیں گے، پشاور سے ایک ایسی ٹرانسفر ہوئی ہے جس کے بعد کے پی کے میں بھی سیم پیج پھٹ گیا ہے (خان صاحب کو بھی ایک دم ٹی ٹی پی کی دھمکیوں کا خیال آ گیا ہے)، پرانے لگے ہوئے چار پانچ اہم افسر بھی ٹرانسفر کر دیے گئے ہیں، ڈالر کے جعلی پر بھی کاٹ دیے گئے ہیں، کچھ فیض یافتگان صحافی ملک چھوڑ گئے ہیں،مزید چھوڑنے کی تیاری میں ہیں، شہباز گل پکڑے گئے ہیں،کچھ اور لوگ بھی پکڑے جائیں گے، یعنی سادہ لفظوں میں ’گروہِ عاشقاں پکڑا گیا ہے، جو نامہ بر رہے ہیں ڈر رہے ہیں‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔