یہ خدا کا نہیں موسمیاتی آلودگی کا عذاب ہے

کوئی قیامت کا انتظار کرنا چاہتا ہے تو کرتا رہے، پاکستان میں تو قیامت آچکی۔

دنیا میں سیلاب اور زلزلے آتے ہیں، تباہی مچاتے ہیں ، مگر جو تباہی اِس مرتبہ پاکستان کے حصے میں آئی ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔

میں نے ایسے مناظر پہلے نہیں دیکھے ، لوگوں کا گھر بار ،مال و متاع، جمع پونجی سب تباہ ہوگیا ہے ، چھوٹے چھوٹے بچے پانی میں بہہ کر ڈوب گئے ہیں ، خاندان کے خاندان ختم ہو گئے ہیں ، سیلاب نے کسی پر رحم نہیں کیا، معصوم بچے ، پردہ دار عورتیں ، لاچار لوگ ،سب در بدر ہیں ۔ایک غریب آدمی جس نے تنکا تنکا جوڑ کر اپنی بیٹی کا جہیز جمع کیا ہو، ایک شخص جس نے مٹی اور گارے سے اپنا مکان بنایا ہو، ایک عورت جو بغیر پردے کے کبھی گھر سے باہر نہ نکلی ہواورایک بچی جو بنا باپ کے رات کا کھانا نہ کھاتی ہو، راتوں رات اگرخون خوار لہریں انہیں بہا کر لے جائیں اور اٹھا کر کسی ویرانے میں پھینک دیں جہاں کوئی اِن کا پرسان حال نہ ہو، باپ اپنی بچی سے جدا ہوجائے ، ماں اپنے بیٹے کو تلاش نہ کرپائے اورجوان عورت یکدم خود کو غیر لوگوں کے بیچوں بیچ بے یارو مدد گار پائے تو ’کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور‘! غریب تو غریب ، اچھے خاصے متمول لوگ بھی سیلاب میں اپنا سب کچھ لٹا بیٹھے ہیں ۔ یہ وہ سیلاب نہیں جس سے نمٹنے کیلئے پیش بندی کی جا سکتی، یہ سیلاب کسی مون سون بارش کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی یہ عذابِ الٰہی ہے ، یہ موسمیاتی آلودگی کا عذاب ہے جس میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔

1957 سے لے کر اب تک زہریلی گیسوں کے اخراج میں پاکستان عالمی سطح پر نصف فیصد کا ذمہ دار ہے جو امریکہ ، روس، چین اور یورپی یونین کے مقابلے میں مونگ پھلی کے دانے کے برابر ہے جب کہ دوسری طرف پاکستان میں ، قطبین کے بعد، سب سے زیادہ تعداد میں گلیشئیرز ہیں جو امیر ممالک کی پھیلائی ہوئی آلودگی کے باعث تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔اِن 7,253 گلیشئیرز میں سے سینکڑوں پگھل کر جھیلوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں اور یہی گلیشئیرز اب تباہی پھیلا رہے ہیں ۔

اب بے شک کوئی جھولی اٹھا کر دعائیں مانگے یا اسے خدا کا عذاب قرار دے ، اِس تباہی سے نجات ممکن اسی صورت میں ہے جب امیر اور ترقی یافتہ ممالک اپنے کارخانوں اور گاڑیوں کا دھواں کم کریں اور اپنے کھربوں ڈالر کے منافع میں سے پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کی تعمیرِ نو کریں۔ ہماری زندگی میں تو یہ معجزہ ممکن نہیں ۔ باقی رہے نام اللہ کا ، وہ چاہے تو اِن کے دل میں کوئی رحم ڈال دے ،ہم عاجز بس یہ دعا ہی کر سکتے ہیں ۔

ہمارے ہر دلعزیز مولانا صاحب نے بغیر کسی لگی لپٹی کے یہ بیان دیا ہے کہ یہ سیلاب ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہے ۔ یہ بات پہلے بھی کافی مرتبہ ہوچکی ہے مگر چونکہ ہمارے محبوب مولانا اسے دہرانے سے باز نہیں آتے تو ہمیں بھی ہے حکم اذاں ، ہم بھی بار با ر کہتے رہیں گے کہ اِس سے زیادہ سفاک بات کوئی نہیں ہوسکتی کہ آپ غریبوں کے زخموں پر نمک چھڑک کر کہیں کہ یہ سیلاب نہیں خدا کا عذاب ہے ۔

وہ معصوم جنہیں دو وقت کا کھانا نصیب نہیں ہوتا، اُن کی جھونپڑی تک سیلاب میں بہہ گئی اورہم انہی کو کہہ رہے ہیں کہ یہ خدا کا عذاب ہے ۔یہ بات خدا کی رحیم و کریم صفات کے منافی ہے ،جی ہاں، وہ قہار اور جبار بھی ہے مگر ظالموں کے لیے نہ کہ مظلوموں کے لیے ، وہ اگرغریبوں کے لیے قہار و جبار ہوتا تو پھر رحیم و کریم اُس کی صفات نہیں ہوسکتی تھیں۔ اور قطع نظر اِس سے، قرآن میں جا بجا عذابِ الٰہی کا ذکر ہے اور یہ اصول بتا دیا گیا ہے کہ جب خدا کسی بستی پر اپنا عذاب نازل کرتا ہے تو پہلے نیک اور برگزیدہ بندوں کو وہاں سے نکال لے جاتاہے، گیہوں کے ساتھ گھُن نہیں پیس دیتا، خدا اگریہ نہ کرے تو پھر قیامت کے دن حساب کس بات کا لے گا؟ رہی بات بے حیائی کی تو مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آسکا کہ پاکستان میں کون سی بے حیائی اور کہاں ہوتی ہے! دنیامیں برہنہ ساحل ہیں جہاں کوئی شخص کپڑے پہن کر نہیں جا سکتا، کلب اور کیسینو ہیں جہاں دن رات بے حیائی کا کاروبار ہوتا ہے، پورے پورے شہر اسی کمائی پر چلتے ہیں ، سود کا کاروبار کرتے ہیں ، وہاں کبھی کوئی عذاب نہیں آیا، بلکہ انہی شہروں میں کورونا ویکسین ایجاد ہوئی جسے لگوا کر ہم حج اور عمرہ کرنے کے قابل ہوئے ہیں اور دنیا نارمل حالت میں واپس آئی ہے ۔

لیکن یہ تصویر کا ایک رُخ ہے ، دوسرا رُخ نسبتاً روشن ہے جس پر ہم بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں ۔اِس سیلاب میں جس طرح الخدمت فاؤنڈیشن اور دیگر فلاحی تنظیموں ، اداروں اور افراد نے سیلاب زدگان کی مدد کی ہے وہ قابلِ ستائش ہے ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اور ڈاکٹر آصف جاہ اب پاکستان کے عبد الستار ایدھی ہیں۔ اِن لوگوں نے جس پیمانے پر فلاحی کام انجام دیے ہیں ، انہیں دیکھ کر بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ اِس مختصر سی زندگی اور غمِ روزگار کے ساتھ کوئی یہ سب کچھ کیسے کر سکتا ہے ، بڑی بڑی این جی اوز مل کر وہ کام نہیں کرسکتیں جو اِن دونوں صاحبان نے کر دکھایا ہے، معجزہ شاید اسی کو کہتے ہیں۔ اسی طرح جلیلہ حیدر نام کی ایک بلوچ لڑکی نے بھی اِس سیلاب میں بلوچستان میں ڈوبے ہوئے علاقوں میں جا کر لوگوں کو خیمے، خوراک اور ضروری اشیا پہنچائی ہیں، میری اِس لڑکی سے کبھی بات نہیں ہوئی، بس ٹویٹر پر دیکھا ہے، اِس لڑکی کو چند سال پہلے گرفتار بھی کیا گیا تھا، بلوچ (ہزارہ) ہونے کے سوا اِس پرکوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا لہٰذا رہا کرنا پڑا۔

یہ ’ون وومین آرمی‘ ہے، آپ میں سے جو لوگ اِس کی مدد کرنا چاہیں وہ اِس کا ٹویٹر کھاتہ دیکھ لیں جہاں اُس نے سیلاب زدگان کی امداد کیلئے اپنا بینک اکاؤنٹ نمبر دیا ہے۔ ایک تو سیلاب، پھر غربت اوراوپرسے بلوچستان، اِس سے زیادہ مستحق لوگ روئے زمین پر اِس وقت دستیاب نہیں۔ جنت میں تو پتانہیں ہمیں گھر ملے گا یا نہیں ،البتہ آپ کی امداد سے اِن افتادگانِ خاک کو چھت مل جائے گی۔

کوئی قیامت کا انتظار کرنا چاہتا ہے تو کرتا رہے، پاکستان میں تو قیامت آچکی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔