بے قابو مہنگائی: بے بس عوام، حکومت کہاں؟

وزیر اعظم شہباز شریف، ن لیگ اور پی ڈی ایم کے میڈیا پر ہر دم عوام سے مخاطب رہنے والے نمائندوں ترجمانوں کو کوئی خبر ہے کہ اشیائے خورونوش کے مسلسل بڑھتے نرخ کہاں پہنچے ہوئے ہیں، انہیں اب بھی نہیں معلوم کہ عوام کی قوتِ خرید زمین سے لگ گئی ہے؟

متنازعہ اور اپنی سیاسی پریشانیوں کی اسیر حکومت کی گورننس کا روایتی اندازِ حکمرانی یہ واضح کر رہا ہے کہ وہ بالکل بے خبر ہیں ، ایسا نہیں تو پھر مکمل بے حس اتنے ہی جتنے غریب عوام (معیار کو تو چھوڑیئے ) مطلوب مقدار کی دال روٹی تک کے لئے بے بس ہو گئے۔متوسط لوئر مڈل کلاس، لوئر غریب اور اَپر بھی متوسط درجے پر آ گیا اور جائز خوشحالوں کا درجہ بھی تیزی سے گر رہا ہے۔

 فرق نہیں پڑ رہا تو ناجائز مراعات یافتہ حکمراں اور ان کا معاون طبقہ جو آئین و قانون شکنی سے عوام کے بنیادی حقوق میں کرپٹ اور انتہاکی مار دھاڑ حکومتوں کا ناجائز بینی فشری بن کر سیاسی ابلاغ میں تو اشرافیہ کہلاتا ہےلیکن اس کی اصلیت اور اصل روپ کچھ اور ہے اور بے نقاب اور سوشل میڈیا پر بہت کچھ اچھا برا تو آتا ہی ہے ، سیاسی پروپیگنڈے کی بھی بھرمار ہے لیکن حکمران اور عوام کی خیر خواہی کے جھوٹے سیاسی ٹھیکیداراس پریشان کن انوکھے میڈیا سے بے نقاب ہوتی عوامی بدحالی، پسماندگی، غربت اور حسرت و یاس کے ابلاغ مسلسل پر کیوں متوجہ نہیں ہوتے ؟ 

وہ اپنے بھاری بھرکم اخراجات کے میڈیا سیلز سے اس عوامی انقلابی میڈیا کو بھی اپنے سیاسی اغراض و مفادات کے حصول کا ذریعہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں؟کوئی بھی وفاقی اور صوبائی حکومت حتیٰ کہ سیلاب سے برباد ہونے والے دیہات اور بہتی بستیوں کی رہنمائی، ہدایت اور حساس اطلاعات کا موثر ذریعہ نہ بنا سکی جب کہ بروقت اور فوری نوعیت کی معلومات کی فراہمی کا کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم قائم کرکے ہی صدمات سے دوچار عوام کا مورال قائم رکھنے اور انہیں ریلیف کے حصول میں آسانیاں پیدا کرنے کا بڑا کام لیا جا سکتا تھا ۔ اب سیلاب کی تباہ کاریاں بڑے شہروں پر اس تیزی سے اثرانداز ہو رہی ہیں کہ بعض سبزیوں کی قیمت تین چار گنا تک بڑھ گئی ہے ۔

جب منڈی اسٹوریج اور سپلائی کا نظام بڑے فیصد میں مکمل ٹھپ ہو گیا تو حکومت غور فرما رہی ہے کہ چار سو روپے کلو ٹماٹر اور 300روپے کلو ہو جانے والا پیاز بھارت سے درآمد کیا جائے یا افغانستان سے ؟ گویا روزِ اول سے پریشان حال شہباز حکومت عوامی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی میں عوامی مشکلات سے جتنی بے حس ثابت ہوئی اتنی ہی نااہل بھی ۔ وگرنہ طوفانی بارشوں اور تباہ کن سیلابی ریلوں کی شمال سے جنوب کی طرف آمد کی پیشگوئیاں تو میڈیا سےمسلسل آ رہی تھیں خصوصاً بلوچستان میں جو تباہی آئی اس کے بعد ہی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو الرٹ ہو جانا چاہئے تھا۔

یہ ذمے داری خصوصاً وفاقی حکومت کی تھی کہ وہ فوڈ سکیورٹی منسٹری کو چوکس کرکے صوبوں سے رابطے کرکے فوڈ اسٹوریج کو ممکنہ حد تک تو محفوظ اور سپلائی چین کو رواں رکھنے کے فوری اقدامات کرتی، یہ جو ان گنت گندم اور اسٹور ایبل سبزیوں کے ذخائر سیلاب کی نذر ہو گئے انہیں کافی حد تک محفوظ کیا جا سکتا تھا ۔طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں کا بنتا ماحول اس کا شدت سے متقاضی تھا لیکن وفاقی حکومت جس کی یہ بنیادی ذمے داری تھی اس کا تمام تر فوکس عمران خان کی مقبولیت کا سیلاب روکنے پر رہا اور ہے ۔ 

پوری کابینہ اور انتظامی مشنری عوام کی ان گنت اور شدید مشکلات سے مکمل بے حس ہو کر عمران کی گرفتاری، انہیں نااہل کرانے، اتنی بربادی ہونے کے بعد بھی بھونڈے اور آمرانہ طرز کے ہتھکنڈوں (جو کافی حد تک متروک بھی ہو گئے تھے ) سے اپنے ہی سیاسی اسباب و مفادات حاصل کرنے میں جتی ہوئی ہے ۔اب المیوں اور صدمات کےپہاڑ ٹوٹنے پر سیلابی علاقوں کے فوٹو سیشن کے حامل بے فیض دوروں کا اتمامِ حجت جاری ہے ۔ ایک بڑا سوال جو عوام اور سیلاب کے متاثرین کے لئے پریشان کن ہے، وہ یہ ہے کہ اب جو بین الاقوامی خصوصاً خیر خواہ دوست ملکوں کی طرف سے سیلاب زدگان کے ریلیف کے لئے امداد پہنچ رہی ہے کیا وہ دیانت داری سے متاثرین و مستحقین تک اتنی ہی پہنچ جائے گی جتنی بھیجی جا رہی ہے ؟اس پر حکومت اپنے ٹرانسپیرنٹ سسٹم کے طریقۂ کار کو مکمل واضح کرے ایسا نہ ہو کہ بازاروں میں امدادی راشن کی فروخت شروع ہو تو میڈیا سے معلوم ہو کہ یہ غضب بھی ہو رہا ہے کہ ماضی کی قدرتی آفات کے حوالے سے کرپشن اور بدترین بددیانتی کا یہ ریکارڈ موجود ہے۔

جہاں تک ملک کی اصلی اور بڑی اپوزیشن تحریک انصاف کا معاملہ ہے بلاشبہ موجود حکومت نے عمران خان کو اپنی سیاست کا مسلسل اور بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے ان کی غیر مقبول ہوتی حکومت ختم کرکے ان کی دنوں ہفتوں میں ہوئی مقبولیت سے خائف ہو کر خان کو انتہائی نااہلی کا مظاہرہ کرتے تھانہ کچہری کے چکر میں ڈال دیا ہے اس سے بڑھ کر ہر وقت ان کے سر پر گرفتاری کی تلوار لٹکائی جا رہی ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ خان اعظم کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔

ایسے میں ان کا کمال عوامی رابطہ شروع اور جاری و ساری رکھنا بالکل بنتا ہے حکومت نے کوئی اور راستہ چھوڑ دیا ہے ؟ پی ڈی ایم کی عقل پر ایسا پردہ پڑاہے کہ اس نے پہلے حکومت اکھاڑ کر ،پھر انہیں سیاسی منظر سے ہٹانے کے لئے جن جن آمرانہ ہتھکنڈوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے وہ خان کے نہ صرف ووٹ بینک کومسلسل بڑھا رہا ہے بلکہ ن لیگ، پی پی اور مولانا صاحب کے زیر اثر حلقۂ ہائے انتخاب میں عمران خان کی حمایت و ہمدردی اتنی زیادہ اورخاموشی سے بڑھ رہی ہے کہ اس کا اندازہ لگانے میں پی ڈی ایم مکمل نااہل ثابت ہو رہی ہے۔

اس سب کے باوجود خان صاحب اگر سیلاب زدگان کی طرف متوجہ ہوئے ہیں تو یہ قابل تحسین ہے ۔عوامی رابطہ اب ان کے لئے صرف سیاسی سرگرمی ہی نہیں اپنے خلاف جملہ خطرات کا موثر ترین دفاعی ہتھیار بھی ثابت ہو رہا ہے۔ عمران خان صاحب سے گزارش ہے کہ پنجاب کے مختلف شہروں میں’’پناہ گاہیں ‘‘ اور ’’لنگر خانے‘‘ ان کی اور پنجاب کی بزدار حکومت ختم ہونے کے بعد بند ہو گئے انہیں پرویز الٰہی حکومت سے شروع کرنے میں اپنا فوری مطلوب کردار ادا کریں کیوں کہ موجودہ ابتر صورتحال میں غریب اور ’’بدیسی‘‘ مزدوروں اور غربا کےلئے یہ اشد ضروری ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔