سائنسدانوں کو ماحولیات کے سوال پر دنیا کے تنہا ترین درخت سے امیدکیوں ہے؟

صنوبر کا یہ درخت دنیا کا تنہا ترین درخت تصور کیا جاتا ہے اور گنیز بک آف رکارڈز میں بھی اسکا نام ’’ریموٹیسٹ ٹری آن دی پلانیٹ‘‘ کے طور پر درج ہے — فوٹو: دی گارجین
صنوبر کا یہ درخت دنیا کا تنہا ترین درخت تصور کیا جاتا ہے اور گنیز بک آف رکارڈز میں بھی اسکا نام ’’ریموٹیسٹ ٹری آن دی پلانیٹ‘‘ کے طور پر درج ہے — فوٹو: دی گارجین 

نیوزیلینڈ کے سائنسدانوں کو امید ہے کہ کیمپ بیل جزیرے پر موجود دنیا کا تنہا ترین بوڑھا درخت ماحولیاتی تبدیلیوں کے سوال کے راز  افشا کرنے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔

نیوزیلینڈ کے جنوبی سمندر کے ایک جزیرے پر موجود 9 میٹر طویل صنوبر (Sitka Spruce) کا یہ درخت  کب لگایا گیا اس حوالے سے کوئی حتمی ثبوت موجود نہیں تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ اسے 1900 کے قریب لگایا گیا تھا۔

صنوبر کا یہ درخت دنیا کا تنہا ترین درخت تصور کیا جاتا ہے اور گنیز بک آف رکارڈز میں بھی اسکا نام ’’ریموٹیسٹ ٹری آن دی پلینٹ‘‘ کے طور پر درج ہے اور یہ 222 کلومیٹرز کے دائرے میں موجود واحد درخت ہے۔

یہ درخت ویسے بھی سائنسدانوں کیلئے دلچسپی کا باعث بن سکتا ہے لیکن جی این ایس سائنس میں ریڈیو کاربن سائنس کے سربراہ ڈاکٹر جوسلن ٹرنبل کا خیال ہے کہ یہ درخت جنوبی سمندر کے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار جذب کرنے کی مقدار جاننے کیلئے ایک اہم اوزار ثابت ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر جوسلن کا کہنا ہے کہ  فاسل فیول کے استعمال سے ہم جو کاربان ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتے ہیں اسکا صرف نصف حصہ پیچھے رہ جاتا ہے  جبکہ باقی نصف حصہ زمین اور سمندر جذب کر لیتے ہیں۔

ڈاکٹر جوسلن کا کہنا ہے کہ جنوبی سمندر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی مقدار کے حوالے سے ہونے والی تحقیقوں میں متضاد نتائج سامنے آئے تھے لیکن موجودہ نظریہ یہ ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب ہونے کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے اور ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ اگر ایسا  ہے تو کس چیز کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کیلئے ڈیٹا جمع کرنے کا سب سے بہترین طریقہ CO2 کنسٹریشن والے ماحول سے ہوا کے سیمپل جمع کرنا ہے  یا گہرے سمندر سے پانی کے سیمپل لے کر ان کی کاربن ڈیٹنگ کرنا ہے لیکن آپ ایسی ہوا کا سیمپل نہیں لے سکتے جو 30 سال پہلے تھی کیوں کہ اب اس کا کوئی نام و نشان وہاں باقی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس خیال پر کام کرنے کا ارادہ کیا کہ ہم درختوں کی رنگز کا مطالعہ کر سکتے ہیں کیوں کہ درخت نشونما پاکر بڑھتے رہتے ہیں اور ہوا سے جذب کی گئی کاربان ڈائی آکسائیڈ ان کی رنگز میں قید رہ جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں درخت بہت ہی کارگر معلومات کا ذریعہ بن سکتے ہیں لیکن جنوبی سمندر کے پاس درخت بہت ہی نایاب ہیں اور صنوبر کے اس  تنہا ترین اور بوڑھے درخت کے حوالے سے ہماری ٹیم کا خیال ہے کہ یہ بہت معلوماتی ڈیٹا مہیا کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صنوبر کے درخت خطے میں موجود کسی بھی دوسری چیز کی نسبت تیزی سے نشونما پاتے ہیں اور ان سے رکارڈ لینا بھی آسان ہوتا ہے کیونکہ ان کی رنگز بڑی ہوتی ہیں اورانہیں الگ کرنا بھی آسان ہوتا ہے۔